شاعر تہذیب حافی - بیسٹ اردو پوئٹری پی

پیر، 2 ستمبر، 2019

شاعر تہذیب حافی




تیری قید سے میں یوں ہی رہا نہیں ہو رہا
میری زندگی تیرا حق ادا نہیں ہو رہا

میرا موسموں سے تو پھر گلا یوں ہی فضول ہے،

تجھے چھو کر بھی اگر میں ہرا نہیں ہو رہا،
تیرے جیتے جاگتے اور کوئی میرے دل میں ہے،
میرے دوست کیا یہ بہت برا نہیں ہو رہا،
----------------------- ----
دل محبت میں مبتلا ہو جائے
جو نہ ہوسکا وہ ہوجائے
تجھ میں یہ عیب ہے کہ خوبی ہے
جو تجھے دیکھ لے تیرا ہوجائے۔
بس وہ اتنا کہے مجھے تم سےہے محبت اور پھر کال منقطع ہوجائے۔
،-------------------------'--
تھوڑا لکھا اور زیادہ چھوڑ دیا
آنے والوں کے لیے رستہ چھوڑ دیا
لڑکیاں عشق میں کتنی پاگل ہوتی ہیں
فون بجا اور چولہا جلتا چھوڑ دیا
تم کیا جانو اس دریا پر کیا گزری
تم نے تو بس پانی بھرنا چھوڑ دیا
بس کارو پر ہاتھ رکھے تھے تھوڑی دیر
اور پھر اس آواز نے پیچھا چھوڑ دیا
لڑکیاں عشق میں کتنی پاگل ہوتی ہیں
فون بجا اور چولہا جلتا چھوڑ دیا
----------------------------
تمہیں حسن پر دسترس ہے محبت محبت بڑا جانتے ہو
تو پھر یہ بتاؤ کہ اس کی آنکھوں کے بارے میں کیا جانتے ہو
یہ جغرافیہ فلسفہ سائیکالوجی سائنس ریاضی وغیرہ
یہ سب جاننا بھی اہم ہے مگر کیا اس کے گھر کا پتہ جانتے ہو
----------------------------
رک گیا ہے یا وہ چل رہا ہے ہم کو سب کچھ پتہ چل رہا ہے
اس نے شادی بھی کی ہے کسی سے اور گاؤں میں کیا چل رہا ہے
----------------------------
تیرا چپ رہنا میرے زہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ میرا گلا بیٹھ گیا
یوں نہیں ہے کہ فقط میں ہی اسے چاہتا ہوں
جو بھی اس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا
اس کی مرضی جسے وہ پاس بٹھا لے اپنے
اس پہ کیا لڑنا کہ فلاں میری جگہ پر بیٹھ گیا اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ
اس نے جس جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا
بزم جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص
جو بھی ایک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا
اپنا لڑنا بھی محبت ہے تمھیں علم نہیں
چیختی تم رہی اور میرا گلا بیٹھ گیا
----------------------------
بچھڑ کراسکا دل لگ بھی گیا تو کیا لگے گا
وقت تھک جائے گا اور میرے گلے سے آ لگے گا
میں مشکل میں تمھارے کام آوں یا نہ آوں
مجھے آواز دے لینا تمہیں اچھا لگے گا
میں جس کوشش سے اسے بھول جانے میں لگا ہوں
زیادہ بھی اگر لگ جائے تو ہفتہ لگے گا-
----------------------------
بعد میں مجھ سے نہ کہنا گھر پلٹنا ٹھیک ہے
ویسے سننے میں یہی آیا ہے کہ رستہ ٹھیک ہے
شاخ سے پتا گرے بارش رکے بادل جھٹیں
میں ہی تو سب کچھ غلط کرتا ہوں اچھا ٹھیک ہے
اس جہان خاک میں ہر شے کو ہے آخر زوال
کا مطلب سوکھ جاتا ہے تو دریا ٹھیک ہے
ذہن تک تسلیم کر لیتا ہےاس کی برتری
آنکھ تک تصدیق کر دیتی ہے کہ بندہ ٹھیک ہے
اک تیری آواز سننے کے لئے زندہ ہیں ہم
تو ہی جب خاموش ہو جائے تو پھر کیا ٹھیک ہے
----------------------------
ٹوٹ بھی جاؤں تو تیرا کیا ہے۔
ریت سے پوچھ آئینہ کیا ہے
پھر میرے سامنے اس کا ذکر
آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے
سب پرندوں سے پیار لوں گا میں
پیڑ کا روپ دھار لوں گا میں
تو نشانے پہ آبھی جائے اگر
کون سا تیر مار لوں گا میں
----------------------------
کیا خبر اس روشنی میں اور کیا روشن ہوا
جب وہ ان ہاتھوں سے پہلی مرتبہ روشن ہوا
وہ میرے سینے سے لگ کرجسکو روئی کون تھا
کس کے بجھنے پر آج میں اس کی جگہ روشن ہوا
ویسے میں ان راستوں اور طاقچوں کا تھا نہیں
پھر بھی تو نے جس جگہ پر رکھ دیا روشن ہوا
میرے جانے پر سبھی روئے بہت روئے مگر
اک دیا میری توقع کے سوا روشن ہوا
تیرے اپنے تیری کرنوں کو ترستے ہیں یہاں
تو یہ کن گلیوں میں کن لوگوں میں جاروشن ہوا
اب اس جانب سے اس کثرت سے تحفے آ رہے ہیں
کہ ہم گھر میں نئی الماریاں بنوا رہے ہیں
ہمیں ملنا تو ان آبادیوں سے دور ملنا
اسے کہنا کہ گئے وقتوں میں ہم دریا رہے ہیں
بچھڑ جانے کا تو ہم نے سوچا تو نہیں تھا لیکن
تجھےخوش رکھنےکی کوشش میں تجھے دکھ پہنچا رہے ہیں۔
میں نے پوچھا تھا کہ مجھ سا بھی کوئی اور ہے
دور جنگل میں کہیں اک مقبرہ روشن ہوا-
----------------------------
اشک ضائع ہو رہے تھے دیکھ کر روتا نہ تھا
جس جگہ بنتا تھا رونا میں ادھر روتا نہ تھا
صرف تیری چپ نے میرے گال گیلے کر دیے
میں تو وہ ہوں جو کسی کی موت پر روتا نہ تھا
مجھ پر کتنے سانحے گزرے پر ان آنکھوں کو کیا
میرا دکھ یہ ہے کہ میرا ہمسفر روتا نہ تھا
میں نے اس کے وصل میں بھی ہجر کاٹا ہے کہیں
وہ میرے کاندھے پر رکھ لیتا تھا سر روتا نہ تھا
پیار تو پہلے بھی اس سے تھا مگر اتنا نہیں
تب میں اس کو چھو تو لیتا تھا مگر روتا نہ تھا
گریاوزاری کو بھی ایک خاص موسم چاہیے
میری آنکھیں دیکھ لو میں وقت پر روتا نہ تھا
----------------------------
پلٹ کر آئے تو سب سے پہلے تجھے ملیں گے
اسی جگہ پر جہاں کئی راستے ملیں گے
اگر کبھی تیرے نام پر جنگ ہو گئی تو
ہم جیسے بزدل بھی پہلی صف میں کھڑے ملیں گے
تجھے یہ سڑکیں میرے توسل سے یہ جانتی ہیں
تجھے ہمیشہ یہ سب اشارے کھلے ملیں گے
ہمیں بدن اور نصیب دونوں سنوارنے ہیں
ہم اس کے ماتھے کا پیار لے کر گلے ملیں گے
نجانے کب اس کی آنکھیں چھلکیں گی میرے غم میں
نہ جانے کس دن مجھے یہ برتن بھرے ملیں گے
تو جس طرح ہمیں چوم کر دیکھتاہے خضر
ہم ایک دن تیرے بازوں میں مرے ملیں گے
----------------------------
خاک ہی خاک تھی اور خاک بھی کیا کچھ نہیں تھا
میں جب آیا تو میرے گھر کی جگہ کچھ نہیں تھا
کیا کروں تجھ سے خیانت نہیں کرسکتا میں
ورنہ اس آنکھ میں میرے لئے کیا کچھ نہیں تھا
----------------------------

میرے بس میں نہیں ورنہ قدرت کا لکھا ہوا کاٹتا
تیرے حصے میں آئے ہوئے برے دن کوئی دوسرا کاٹتا
لاریوں سے ذرا زیادہ بہاؤ تھا تیرے ہر اک لفظ میں
میں اشارہ نہیں کاٹ سکتا تیری بات کیا کاٹتا
میں نے بھی زندگی اور شب ہجر کاٹی ہے سب کی طرح
ویسے بہتر تو یہ تھا کہ کم سے کم کچھ نیا کاٹتا
تیرے ہوتے ہوئے موم بتی بجھائی کسی اور نے
کیا خوشی رہ گئی تھی جنم دن کی میں کیک کیا کاٹتا
کوئی بھی تو نہیں جو میرے بھوکے رہنے پر ناراض ہو
جیل میں تیری تصویر ہوتی تو ہنس کی سزا کاٹتا
----------------------------
کسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے پہ کٹ رہی
کہ یہ اداسی ہمارے جسموں سے کس خوشی میں لپٹ رہی ہے
عجیب دکھ ہے کہ ہم اس کے ہو کر بھی اس کو چھونے سے ڈررہے ہیں
عجیب دکھ ہے کہ ہمارے حصے کی آگ کسی اور کو پڑ رہی ہے
وہ جیسے پیڑوں کے سوکھنے اور سبز ہونے سے کیا کسی کو
یہ بیل شاید کسی مصیبت میں ہے جو مجھ سے لپٹ رہی ہے
میں اس کو ہر روزیہ جھوٹ سننے کو اس کو فون کرتا
سنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہے
سو اس تعلق میں جو غلط فہمیاں تھی وہ دور ہو رہی ہیں
رکی ہوئی گاڑیوں کے چلنے کا وقت ہےدھند چھٹ رہی ہے
----------------------------





2 تبصرے: