بیسٹ اردو پوئٹری پی: جون ایلیا
جون ایلیا لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
جون ایلیا لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 15 ستمبر، 2019

جون ایلیا

ستمبر 15, 2019 0
جون ایلیا

آدمی وقت پر گیا ہوگا
وقت پہلے گزر گیا ہوگا

وہ ہماری طرف نہ دیکھ کے بھی
کوئی احسان دھر گیا ہوگا

خود سے مایوس ہو کے بیٹھا ہوں
آج ہر شخص مر گیا ہوگا

شام تیرے دیار میں آخر
کوئی تو اپنے گھر گیا ہوگا

مرہم ہجر تھا عجب اکسیر
اب تو ہر زخم بھر گیا ہوگا
----------------------------------------------------
گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا
تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا

مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا

یاد ہیں اب بھی اپنے خواب تمہیں
مجھ سے مل کر اداس بھی ہو کیا

بس مجھے یوں ہی اک خیال آیا
سوچتی ہو تو سوچتی ہو کیا

اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا

کیا کہا عشق جاودانی ہے!
آخری بار مل رہی ہو کیا

ہاں فضا یاں کی سوئی سوئی سی ہے
تو بہت تیز روشنی ہو کیا

میرے سب طنز بے اثر ہی رہے
تم بہت دور جا چکی ہو کیا

دل میں اب سوز انتظار نہیں
شمع امید بجھ گئی ہو کیا

اس سمندر پہ تشنہ کام ہوں میں
بان تم اب بھی بہہ رہی ہو کیا
----------------------------------------------
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا

میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا

مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا

خود کو جانا جدا زمانے سے
آ گیا تھا مرے گمان میں کیا

شام ہی سے دکان دید ہے بند
نہیں نقصان تک دکان میں کیا

اے مرے صبح و شام دل کی شفق
تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
آ رہا ہے مرے گمان میں کیا

دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت
خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا

وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

ہے نسیم بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
--------------------------------------------------------
سارے رشتے تباہ کر آیا
دل برباد اپنے گھر آیا

آخرش خون تھوکنے سے میاں
بات میں تیری کیا اثر آیا

تھا خبر میں زیاں دل و جاں کا
ہر طرف سے میں بے خبر آیا

اب یہاں ہوش میں کبھی اپنے
نہیں آؤں گا میں اگر آیا

میں رہا عمر بھر جدا خود سے
یاد میں خود کو عمر بھر آیا

وہ جو دل نام کا تھا ایک نفر
آج میں اس سے بھی مکر آیا

مدتوں بعد گھر گیا تھا میں
جاتے ہی میں وہاں سے ڈر آیا
---------------------------------------------------
ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا
میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا

ذات در ذات ہم سفر رہ کر
اجنبی اجنبی کو بھول گیا

صبح تک وجہ جاں کنی تھی جو بات
میں اسے شام ہی کو بھول گیا

عہد وابستگی گزار کے میں
وجہ وابستگی کو بھول گیا

سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں
بحث کیا تھی اسی کو بھول گیا

کیوں نہ ہو ناز اس ذہانت پر
ایک میں ہر کسی کو بھول گیا

سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا

قہقہہ مارتے ہی دیوانہ
ہر غم زندگی کو بھول گیا

خواب ہا خواب جس کو چاہا تھا
رنگ ہا رنگ اسی کو بھول گیا

کیا قیامت ہوئی اگر اک شخص
اپنی خوش قسمتی کو بھول گیا

سوچ کر اس کی خلوت انجمنی
واں میں اپنی کمی کو بھول گیا

سب برے مجھ کو یاد رہتے ہیں
جو بھلا تھا اسی کو بھول گیا

ان سے وعدہ تو کر لیا لیکن
اپنی کم فرصتی کو بھول گیا

بستیو اب تو راستہ دے دو
اب تو میں اس گلی کو بھول گیا

اس نے گویا مجھی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اسی کو بھول گیا

یعنی تم وہ ہو واقعی؟ حد ہے
میں تو سچ مچ سبھی کو بھول گیا

آخری بت خدا نہ کیوں ٹھہرے
بت شکن بت گری کو بھول گیا

اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بھول گیا

اس کی خوشیوں سے جلنے والا جونؔ
اپنی ایذا دہی کو بھول گیا
---------------------------------------------------
دل نے وفا کے نام پر کار وفا نہیں کیا
خود کو ہلاک کر لیا خود کو فدا نہیں کیا

خیرہ سران شوق کا کوئی نہیں ہے جنبہ دار
شہر میں اس گروہ نے کس کو خفا نہیں کیا

جو بھی ہو تم پہ معترض اس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا

نسبت علم ہے بہت حاکم وقت کو عزیز
اس نے تو کار جہل بھی بے علما نہیں کیا

جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکم خدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام ہاں بہ خدا نہیں کیا
---------------------------------------------------
دید کی ایک آن میں کار دوام ہو گیا
وہ بھی تمام ہو گیا میں بھی تمام ہو گیا

اب میں ہوں اک عذاب میں اور عجب عذاب میں
جنت پر سکوت میں مجھ سے کلام ہو گیا

آہ وہ عیش راز جاں ہائے وہ عیش راز جاں
ہائے وہ عیش راز جاں شہر میں عام ہو گیا

رشتۂ رنگ جاں مرا نکہت ناز سے تری
پختہ ہوا اور اس قدر یعنی کہ خام ہو گیا

پوچھ نہ وصل کا حساب حال ہے اب بہت خراب
رشتۂ جسم و جاں کے بیچ جسم حرام ہو گیا

شہر کی داستاں نہ پوچھ ہے یہ عجیب داستاں
آنے سے شہریار کے شہر غلام ہو گیا

دل کی کہانیاں بنیں کوچہ بہ کوچہ کو بہ کو
سہہ کے ملال شہر کو شہر میں نام ہو گیا

جونؔ کی تشنگی کا تھا خوب ہی ماجرا کہ جو
مینا بہ مینا مے بہ مے جام بہ جام ہو گیا

ناف پیالے کو ترے دیکھ لیا مغاں نے جان
سارے ہی مے کدے کا آج کام تمام ہو گیا

اس کی نگاہ اٹھ گئی اور میں اٹھ کے رہ گیا
میری نگاہ جھک گئی اور سلام ہو گیا
-----------------------------------------------------
دل کا دیار خواب میں دور تلک گزر رہا
پاؤں نہیں تھے درمیاں آج بڑا سفر رہا

ہو نہ سکا ہمیں کبھی اپنا خیال تک نصیب
نقش کسی خیال کا لوح خیال پر رہا

نقش گروں سے چاہیئے نقش و نگار کا حساب
رنگ کی بات مت کرو رنگ بہت بکھر رہا

جانے گماں کی وہ گلی ایسی جگہ ہے کون سی
دیکھ رہے ہو تم کہ میں پھر وہیں جا کے مر رہا

دل مرے دل مجھے بھی تم اپنے خواص میں رکھو
یاراں تمہارے باب میں میں ہی نہ معتبر رہا

شہر فراق یار سے آئی ہے اک خبر مجھے
کوچۂ یاد یار سے کوئی نہیں ابھر رہا
------------------------------------------------------
بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا
زمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا

تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لی
تو خود اپنے کو آدھا کر لیا کیا

ہنر مندی سے اپنی دل کا صفحہ
مری جاں تم نے سادہ کر لیا کیا

جو یکسر جان ہے اس کے بدن سے
کہو کچھ استفادہ کر لیا کیا

بہت کترا رہے ہو مغبچوں سے
گناہ ترک بادہ کر لیا کیا

یہاں کے لوگ کب کے جا چکے ہیں
سفر جادہ بہ جادہ کر لیا کیا

اٹھایا اک قدم تو نے نہ اس تک
بہت اپنے کو ماندہ کر لیا کیا

تم اپنی کج کلاہی ہار بیٹھیں
بدن کو بے لبادہ کر لیا کیا

بہت نزدیک آتی جا رہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
-------------------------------------------------------------------------
جانے کہاں گیا ہے وہ وہ جو ابھی یہاں تھا
وہ جو ابھی یہاں تھا وہ کون تھا کہاں تھا

تا لمحۂ گزشتہ یہ جسم اور سائے
زندہ تھے رائیگاں میں جو کچھ تھا رائیگاں تھا

اب جس کی دید کا ہے سودا ہمارے سر میں
وہ اپنی ہی نظر میں اپنا ہی اک سماں تھا

کیا کیا نہ خون تھوکا میں اس گلی میں یارو
سچ جاننا وہاں تو جو فن تھا رائیگاں تھا

یہ وار کر گیا ہے پہلو سے کون مجھ پر
تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا

اس شہر کی حفاظت کرنی تھی ہم کو جس میں
آندھی کی تھیں فصیلیں اور گرد کا مکاں تھا

تھی اک عجب فضا سی امکان خال و خد کی
تھا اک عجب مصور اور وہ مرا گماں تھا

عمریں گزر گئی تھیں ہم کو یقیں سے بچھڑے
اور لمحہ اک گماں کا صدیوں میں بے اماں تھا

جب ڈوبتا چلا میں تاریکیوں کی تہ میں
تہ میں تھا اک دریچہ اور اس میں آسماں تھا
------------------------------------------------------------
اے وصل کچھ یہاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
اس جسم کی میں جاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا

تو آج میرے گھر میں جو مہماں ہے عید ہے
تو گھر کا میزباں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا

کھولی تو ہے زبان مگر اس کی کیا بساط
میں زہر کی دکاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا

کیا ایک کاروبار تھا وہ ربط جسم و جاں
کوئی بھی رائیگاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا

کتنا جلا ہوا ہوں بس اب کیا بتاؤں میں
عالم دھواں دھواں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا

دیکھا تھا جب کہ پہلے پہل اس نے آئینہ
اس وقت میں وہاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا

وہ اک جمال جلوہ فشاں ہے زمیں زمیں
میں تا بہ آسماں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا

میں نے بس اک نگاہ میں طے کر لیا تجھے
تو رنگ بیکراں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا

گم ہو کے جان تو مری آغوش ذات میں
بے نام و بے نشاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا

ہر کوئی درمیان ہے اے ماجرا فروش
میں اپنے درمیاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
---------------------------------------------------------
اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا
سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اور میں تنہا زندہ تھا

ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں
ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا

وہ جو کبوتر اس موکھے میں رہتے تھے کس دیس اڑے
ایک کا نام نوازندہ تھا اور اک کا بازندہ تھا

وہ دوپہر اپنی رخصت کی ایسا ویسا دھوکا تھی
اپنے اندر اپنی لاش اٹھائے میں جھوٹا زندہ تھا

تھیں وہ گھر راتیں بھی کہانی وعدے اور پھر دن گننا
آنا تھا جانے والے کو جانے والا زندہ تھا

دستک دینے والے بھی تھے دستک سننے والے بھی
تھا آباد محلہ سارا ہر دروازہ زندہ تھا

پیلے پتوں کو سہ پہر کی وحشت پرسا دیتی تھی
آنگن میں اک اوندھے گھڑے پر بس اک کوا زندہ تھا
----------------------------------------------------------
اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں
ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں

میں اُسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں

وہ ہے جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے، ہم اُس سے جلتے ہیں

ہے اُسے دور کا سفر در پیش
ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں

ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں

تم بنو رنگ، تم بنو خوشبو
ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں
------------------------------------------------
ﻣﺮﻣﭩﺎ ﮨﻮﮞ ﺧﯿﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ
ﻭﺟﺪ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺣﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﺍﺑﮭﯽ ﻣﺖ ﺩﯾﺠﯿﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ
ﺟﮭﻮﻡ ﺗﻮ ﻟﻮﮞ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺭﺯﻭ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﻣﺮ ﻧﮧ ﺟﺎﺅﮞ ﻭﺻﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﺍﮎ ﻋﻄﺎ ﮨﮯ ﻣﺮﯼ ﮨﻮﺱ ﻧﮕﮩﯽ
ﻧﺎﺯ ﮐﺮ ﺧﺪﻭ ﺧﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﺍﭘﻨﺎ ﺷﻮﻕ ﺍﯾﮏ، ﺣﯿﻠﮧ ﺳﺎﺯ ﺁﺅ
ﺷﮏ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺟﻤﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﺟﺎﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﻡ ﻭﮦ ﮐﺲ ﮐﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﻮ
ﺑﺤﺚ ﻣﺖ ﮐﺮ ﻣﺤﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﺗُﻮ ﺑﮭﯽ ﺁﺧﺮ ﮐﻤﺎﻝ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﺎ
ﻣﺴﺖ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺯﻭﺍﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﻮ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﻼﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﺧﻮﺩ ﭘﮧ ﻧﺎﺩﻡ ﮨﻮﮞ ﺟﻮﻥ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﯿﮟ
ﺍﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﮨﻮﮞ ﮐﻤﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ
------------------------------------------------------
ﻣﺮﻣﭩﺎ ﮨﻮﮞ ﺧﯿﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ
ﻭﺟﺪ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺣﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﺍﺑﮭﯽ ﻣﺖ ﺩﯾﺠﯿﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ
ﺟﮭﻮﻡ ﺗﻮ ﻟﻮﮞ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺭﺯﻭ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﻣﺮ ﻧﮧ ﺟﺎﺅﮞ ﻭﺻﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﺍﮎ ﻋﻄﺎ ﮨﮯ ﻣﺮﯼ ﮨﻮﺱ ﻧﮕﮩﯽ
ﻧﺎﺯ ﮐﺮ ﺧﺪﻭ ﺧﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﺍﭘﻨﺎ ﺷﻮﻕ ﺍﯾﮏ، ﺣﯿﻠﮧ ﺳﺎﺯ ﺁﺅ
ﺷﮏ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺟﻤﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﺟﺎﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﻡ ﻭﮦ ﮐﺲ ﮐﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﻮ
ﺑﺤﺚ ﻣﺖ ﮐﺮ ﻣﺤﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﺗُﻮ ﺑﮭﯽ ﺁﺧﺮ ﮐﻤﺎﻝ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﺎ
ﻣﺴﺖ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺯﻭﺍﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﻮ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﻼﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ

ﺧﻮﺩ ﭘﮧ ﻧﺎﺩﻡ ﮨﻮﮞ ﺟﻮﻥ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﯿﮟ
ﺍﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﮨﻮﮞ ﮐﻤﺎﻝ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ
------------------------------------------------------