گنگناتی سی کوئی رات بھی آ جاتی ہے
آپ آتے ہیں تو برسات بھی آ جاتی ہے
ہم کو ہر چند گوارا نہیں آنسو لیکن
اپنی جھولی میں یہ خیرات بھی آ جاتی ہے
آرزوؤں کے جنازے ہی نہیں پلکوں پر
بجلیوں کی کبھی بارات بھی آ جاتی ہے
گردش جام سے ہٹ کر بھی تری آنکھوں سے
وجد میں گردش حالات بھی آ جاتی ہے
وہ فسانے جو مرے نام سے منسوب ہوئے
ان فسانوں میں تری بات بھی آ جاتی ہے
آپ آتے ہیں تو برسات بھی آ جاتی ہے
ہم کو ہر چند گوارا نہیں آنسو لیکن
اپنی جھولی میں یہ خیرات بھی آ جاتی ہے
آرزوؤں کے جنازے ہی نہیں پلکوں پر
بجلیوں کی کبھی بارات بھی آ جاتی ہے
گردش جام سے ہٹ کر بھی تری آنکھوں سے
وجد میں گردش حالات بھی آ جاتی ہے
وہ فسانے جو مرے نام سے منسوب ہوئے
ان فسانوں میں تری بات بھی آ جاتی ہے
---------------------------------------------------------
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو
میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو
میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن
میں ہوں گر پھول تو جوڑے میں سجا لے مجھ کو
ترک الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم
تو کبھی یاد تو کر بھولنے والے مجھ کو
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
میں سمندر بھی ہوں موتی بھی ہوں غوطہ زن بھی
کوئی بھی نام مرا لے کے بلا لے مجھ کو
تو نے دیکھا نہیں آئینے سے آگے کچھ بھی
خود پرستی میں کہیں تو نہ گنوا لے مجھ کو
باندھ کر سنگ وفا کر دیا تو نے غرقاب
کون ایسا ہے جو اب ڈھونڈ نکالے مجھ کو
خود کو میں بانٹ نہ ڈالوں کہیں دامن دامن
کر دیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو
میں کھلے در کے کسی گھر کا ہوں ساماں پیارے
تو دبے پاؤں کبھی آ کے چرا لے مجھ کو
کل کی بات اور ہے میں اب سا رہوں یا نہ رہوں
جتنا جی چاہے ترا آج ستا لے مجھ کو
بادہ پھر بادہ ہے میں زہر بھی پی جاؤں قتیلؔ
شرط یہ ہے کوئی بانہوں میں سنبھالے مجھ کو
میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو
میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن
میں ہوں گر پھول تو جوڑے میں سجا لے مجھ کو
ترک الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم
تو کبھی یاد تو کر بھولنے والے مجھ کو
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
میں سمندر بھی ہوں موتی بھی ہوں غوطہ زن بھی
کوئی بھی نام مرا لے کے بلا لے مجھ کو
تو نے دیکھا نہیں آئینے سے آگے کچھ بھی
خود پرستی میں کہیں تو نہ گنوا لے مجھ کو
باندھ کر سنگ وفا کر دیا تو نے غرقاب
کون ایسا ہے جو اب ڈھونڈ نکالے مجھ کو
خود کو میں بانٹ نہ ڈالوں کہیں دامن دامن
کر دیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو
میں کھلے در کے کسی گھر کا ہوں ساماں پیارے
تو دبے پاؤں کبھی آ کے چرا لے مجھ کو
کل کی بات اور ہے میں اب سا رہوں یا نہ رہوں
جتنا جی چاہے ترا آج ستا لے مجھ کو
بادہ پھر بادہ ہے میں زہر بھی پی جاؤں قتیلؔ
شرط یہ ہے کوئی بانہوں میں سنبھالے مجھ کو
---------------------------------------------------------
گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
بچ نکلتے ہیں اگر آتش سیال سے ہم
شعلۂ عارض گلفام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی تو نہیں شیوۂ ارباب وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں
ربط باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
بچ نکلتے ہیں اگر آتش سیال سے ہم
شعلۂ عارض گلفام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی تو نہیں شیوۂ ارباب وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں
ربط باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
------------------------------------------------------
اسے منا کر غرور اس کا بڑھا نہ دینا
وہ سامنے آئے بھی تو اس کو صدا نہ دینا
خلوص کو جو خوشامدوں میں شمار کر لیں
تم ایسے لوگوں کو تحفتاً بھی وفا نہ دینا
وہ جس کی ٹھوکر میں ہو سنبھلنے کا درس شامل
تم ایسے پتھر کو راستے سے ہٹا نہ دینا
سزا گناہوں کی دینا اس کو ضرور لیکن
وہ آدمی ہے تم اس کی عظمت گھٹا نہ دینا
جہاں رفاقت ہو فتنہ پرداز مولوی کی
بہشت ایسی کسی کو میرے خدا نہ دینا
قتیلؔ مجھ کو یہی سکھایا مرے نبیؐ نے
کہ فتح پا کر بھی دشمنوں کو سزا نہ دینا
وہ سامنے آئے بھی تو اس کو صدا نہ دینا
خلوص کو جو خوشامدوں میں شمار کر لیں
تم ایسے لوگوں کو تحفتاً بھی وفا نہ دینا
وہ جس کی ٹھوکر میں ہو سنبھلنے کا درس شامل
تم ایسے پتھر کو راستے سے ہٹا نہ دینا
سزا گناہوں کی دینا اس کو ضرور لیکن
وہ آدمی ہے تم اس کی عظمت گھٹا نہ دینا
جہاں رفاقت ہو فتنہ پرداز مولوی کی
بہشت ایسی کسی کو میرے خدا نہ دینا
قتیلؔ مجھ کو یہی سکھایا مرے نبیؐ نے
کہ فتح پا کر بھی دشمنوں کو سزا نہ دینا
--------------------------------------------------------
اس پر تمہارے پیار کا الزام بھی تو ہے
اچھا سہی قتیلؔ پہ بدنام بھی تو ہے
آنکھیں ہر اک حسین کی بے فیض تو نہیں
کچھ ساگروں میں بادۂ گلفام بھی تو ہے
پلکوں پہ اب نہیں ہے وہ پہلا سا بار غم
رونے کے بعد کچھ ہمیں آرام بھی تو ہے
آخر بری ہے کیا دل ناکام کی خلش
ساتھ اس کے ایک لذت بے نام بھی تو ہے
کر تو لیا ہے قصد عبادت کی رات کا
رستے میں جھومتی ہوئی اک شام بھی تو ہے
ہم جانتے ہیں جس کو کسی اور نام سے
اک نام اس کا گردش ایام بھی تو ہے
اے تشنہ کام شوق اسے آزما کے دیکھ
وہ آنکھ صرف آنکھ نہیں جام بھی تو ہے
منکر نہیں کوئی بھی وفا کا مگر قتیلؔ
دنیا کے سامنے مرا انجام بھی تو ہے
-------------------------------------------------
اچھا سہی قتیلؔ پہ بدنام بھی تو ہے
آنکھیں ہر اک حسین کی بے فیض تو نہیں
کچھ ساگروں میں بادۂ گلفام بھی تو ہے
پلکوں پہ اب نہیں ہے وہ پہلا سا بار غم
رونے کے بعد کچھ ہمیں آرام بھی تو ہے
آخر بری ہے کیا دل ناکام کی خلش
ساتھ اس کے ایک لذت بے نام بھی تو ہے
کر تو لیا ہے قصد عبادت کی رات کا
رستے میں جھومتی ہوئی اک شام بھی تو ہے
ہم جانتے ہیں جس کو کسی اور نام سے
اک نام اس کا گردش ایام بھی تو ہے
اے تشنہ کام شوق اسے آزما کے دیکھ
وہ آنکھ صرف آنکھ نہیں جام بھی تو ہے
منکر نہیں کوئی بھی وفا کا مگر قتیلؔ
دنیا کے سامنے مرا انجام بھی تو ہے
-------------------------------------------------
وہ شخص کہ میں جس سے محبت نہیں کرتا
ہنستا ہے مجھے دیکھ کے ، نفرت نہیں کرتا
گھر والوں کو غفلت پہ سبھی کوس رہے ہیں
چوروں کو مگر کوئی ملامت نہیں کرتا
دیتے ہیں اجالے مرے سجدوں کی گواہی
میں چھپ کے اندھیروں میں عبادت نہیں کرتا
بھولا نہیں میں آج بھی آداب جوانی
میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
ہنستا ہے مجھے دیکھ کے ، نفرت نہیں کرتا
گھر والوں کو غفلت پہ سبھی کوس رہے ہیں
چوروں کو مگر کوئی ملامت نہیں کرتا
دیتے ہیں اجالے مرے سجدوں کی گواہی
میں چھپ کے اندھیروں میں عبادت نہیں کرتا
بھولا نہیں میں آج بھی آداب جوانی
میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
------------------------------------------------
میں نے پوچھا پہلا پتھر مجھ پر کون اٹھائے گا
آئی اک آواز کہ تو جس کا محسن کہلائے گا
پوچھ سکے تو پوچھے کوئی روٹھ کے جانے والوں سے
روشنیوں کو میرے گھر کا رستہ کون بتائے گا
ڈالی ہے اس خوش فہمی نے عادت مجھ کو سونے کی
نکلے گا جب سورج تو خود مجھ کو آن جگائے گا
لوگو میرے ساتھ چلو تم جو کچھ ہے وہ آگے ہے
پیچھے مڑ کر دیکھنے والا پتھر کا ہو جائے گا
دن میں ہنس کر ملنے والے چہرے صاف بتاتے ہیں
ایک بھیانک سپنا مجھ کو ساری رات ڈرائے گا
میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا
سوکھ گئی جب آنکھوں میں پیار کی نیلی جھیل قتیلؔ
تیرے درد کا زرد سمندر کاہے شور مچائے گا
آئی اک آواز کہ تو جس کا محسن کہلائے گا
پوچھ سکے تو پوچھے کوئی روٹھ کے جانے والوں سے
روشنیوں کو میرے گھر کا رستہ کون بتائے گا
ڈالی ہے اس خوش فہمی نے عادت مجھ کو سونے کی
نکلے گا جب سورج تو خود مجھ کو آن جگائے گا
لوگو میرے ساتھ چلو تم جو کچھ ہے وہ آگے ہے
پیچھے مڑ کر دیکھنے والا پتھر کا ہو جائے گا
دن میں ہنس کر ملنے والے چہرے صاف بتاتے ہیں
ایک بھیانک سپنا مجھ کو ساری رات ڈرائے گا
میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا
سوکھ گئی جب آنکھوں میں پیار کی نیلی جھیل قتیلؔ
تیرے درد کا زرد سمندر کاہے شور مچائے گا
-----------------------------------------------------
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
سرخ آہن پر ٹپکتی بوند ہے اب ہر خوشی
زندگی نے یوں تو پہلے ہم کو ترسایا نہ تھا
کیا ملا آخر تجھے سایوں کے پیچھے بھاگ کر
اے دل ناداں تجھے کیا ہم نے سمجھایا نہ تھا
اف یہ سناٹا کہ آہٹ تک نہ ہو جس میں مخل
زندگی میں اس قدر ہم نے سکوں پایا نہ تھا
خوب روئے چھپ کے گھر کی چار دیواری میں ہم
حال دل کہنے کے قابل کوئی ہم سایہ نہ تھا
ہو گئے قلاش جب سے آس کی دولت لٹی
پاس اپنے اور تو کوئی بھی سرمایہ نہ تھا
وہ پیمبر ہو کہ عاشق قتل گاہ شوق میں
تاج کانٹوں کا کسے دنیا نے پہنایا نہ تھا
اب کھلا جھونکوں کے پیچھے چل رہی تھیں آندھیاں
اب جو منظر ہے وہ پہلے تو نظر آیا نہ تھا
صرف خوشبو کی کمی تھی غور کے قابل قتیلؔ
ورنہ گلشن میں کوئی بھی پھول مرجھایا نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
سرخ آہن پر ٹپکتی بوند ہے اب ہر خوشی
زندگی نے یوں تو پہلے ہم کو ترسایا نہ تھا
کیا ملا آخر تجھے سایوں کے پیچھے بھاگ کر
اے دل ناداں تجھے کیا ہم نے سمجھایا نہ تھا
اف یہ سناٹا کہ آہٹ تک نہ ہو جس میں مخل
زندگی میں اس قدر ہم نے سکوں پایا نہ تھا
خوب روئے چھپ کے گھر کی چار دیواری میں ہم
حال دل کہنے کے قابل کوئی ہم سایہ نہ تھا
ہو گئے قلاش جب سے آس کی دولت لٹی
پاس اپنے اور تو کوئی بھی سرمایہ نہ تھا
وہ پیمبر ہو کہ عاشق قتل گاہ شوق میں
تاج کانٹوں کا کسے دنیا نے پہنایا نہ تھا
اب کھلا جھونکوں کے پیچھے چل رہی تھیں آندھیاں
اب جو منظر ہے وہ پہلے تو نظر آیا نہ تھا
صرف خوشبو کی کمی تھی غور کے قابل قتیلؔ
ورنہ گلشن میں کوئی بھی پھول مرجھایا نہ تھا
----------------------------------------------------------------
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
سمجھو وہاں پھل دار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جس میں کوئی پتھر نہیں گرتا
اتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی کا
اس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا
انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخن ور نہیں گرتا
حیراں ہے کئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا
اس بندۂ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایہ
جو بھوک میں بھی لقمۂ تر پر نہیں گرتا
کرنا ہے جو سر معرکۂ زیست تو سن لے
بے بازوئے حیدر در خیبر نہیں گرتا
قائم ہے قتیلؔ اب یہ مرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
سمجھو وہاں پھل دار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جس میں کوئی پتھر نہیں گرتا
اتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی کا
اس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا
انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخن ور نہیں گرتا
حیراں ہے کئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا
اس بندۂ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایہ
جو بھوک میں بھی لقمۂ تر پر نہیں گرتا
کرنا ہے جو سر معرکۂ زیست تو سن لے
بے بازوئے حیدر در خیبر نہیں گرتا
قائم ہے قتیلؔ اب یہ مرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا
------------------------------------------------------------
اے دوست! تری آنکھ جو نم ہے تو مجھے کیا
میں خوب ہنسوں گا تجھے غم ہے تو مجھے کیا
کیا میں نے کہا تھا کہ زمانے سے بھلا کر
اب تو بھی سزاوار ستم ہے تو مجھے کیا
ہاں لے لے قسم گر مجھے قطرہ بھی ملا ہو
تو شاکیٔ ارباب کرم ہے تو مجھے کیا
جس در سے ندامت کے سوا کچھ نہیں ملتا
اس در پہ ترا سر بھی جو خم ہے تو مجھے کیا
میں نے تو پکارا ہے محبت کے افق سے
رستے میں ترے سنگ حرم ہے تو مجھے کیا
بھولا تو نہ ہوگا تجھے سقراط کا انجام
ہاتھوں میں ترے ساغر سم ہے تو مجھے کیا
پتھر نہ پڑیں گر سر بازار تو کہنا
تو معترف حسن صنم ہے تو مجھے کیا
میں سرمد و منصور بنا ہوں تری خاطر
یہ بھی تری امید سے کم ہے تو مجھے کیا
میں خوب ہنسوں گا تجھے غم ہے تو مجھے کیا
کیا میں نے کہا تھا کہ زمانے سے بھلا کر
اب تو بھی سزاوار ستم ہے تو مجھے کیا
ہاں لے لے قسم گر مجھے قطرہ بھی ملا ہو
تو شاکیٔ ارباب کرم ہے تو مجھے کیا
جس در سے ندامت کے سوا کچھ نہیں ملتا
اس در پہ ترا سر بھی جو خم ہے تو مجھے کیا
میں نے تو پکارا ہے محبت کے افق سے
رستے میں ترے سنگ حرم ہے تو مجھے کیا
بھولا تو نہ ہوگا تجھے سقراط کا انجام
ہاتھوں میں ترے ساغر سم ہے تو مجھے کیا
پتھر نہ پڑیں گر سر بازار تو کہنا
تو معترف حسن صنم ہے تو مجھے کیا
میں سرمد و منصور بنا ہوں تری خاطر
یہ بھی تری امید سے کم ہے تو مجھے کیا
---------------------------------------------------
پھول پہ دھول ببول پہ شبنم دیکھنے والے دیکھتا جا
اب ہے یہی انصاف کا عالم دیکھنے والے دیکھتا جا
پروانوں کی راکھ اڑا دی باد سحر کے جھونکوں نے
شمع بنی ہے پیکر ماتم دیکھنے والے دیکھتا جا
جام بہ جام لگی ہیں مہریں مے خانوں پر پہرے ہیں
روتی ہے برسات چھما چھم دیکھنے والے دیکھتا جا
اس نگری کے راج دلارے ایک طرح کب رہتے ہیں
ڈھلتے سائے بدلتے موسم دیکھنے والے دیکھتا جا
مصلحتوں کی دھول جمی ہے اکھڑے اکھڑے قدموں پر
جھجک جھجک کر اڑتے پرچم دیکھنے والے دیکھتا جا
ایک پرانا مدفن جس میں دفن ہیں لاکھوں امیدیں
چھلنی چھلنی سینۂ آدم دیکھنے والے دیکھتا جا
ایک ترا ہی دل نہیں گھائل درد کے مارے اور بھی ہیں
کچھ اپنا کچھ دنیا کا غم دیکھنے والے دیکھتا جا
کم نظروں کی اس دنیا میں دیر بھی ہے اندھیر بھی ہے
پتھرایا ہر دیدۂ پر نم دیکھنے والے دیکھتا جا
اب ہے یہی انصاف کا عالم دیکھنے والے دیکھتا جا
پروانوں کی راکھ اڑا دی باد سحر کے جھونکوں نے
شمع بنی ہے پیکر ماتم دیکھنے والے دیکھتا جا
جام بہ جام لگی ہیں مہریں مے خانوں پر پہرے ہیں
روتی ہے برسات چھما چھم دیکھنے والے دیکھتا جا
اس نگری کے راج دلارے ایک طرح کب رہتے ہیں
ڈھلتے سائے بدلتے موسم دیکھنے والے دیکھتا جا
مصلحتوں کی دھول جمی ہے اکھڑے اکھڑے قدموں پر
جھجک جھجک کر اڑتے پرچم دیکھنے والے دیکھتا جا
ایک پرانا مدفن جس میں دفن ہیں لاکھوں امیدیں
چھلنی چھلنی سینۂ آدم دیکھنے والے دیکھتا جا
ایک ترا ہی دل نہیں گھائل درد کے مارے اور بھی ہیں
کچھ اپنا کچھ دنیا کا غم دیکھنے والے دیکھتا جا
کم نظروں کی اس دنیا میں دیر بھی ہے اندھیر بھی ہے
پتھرایا ہر دیدۂ پر نم دیکھنے والے دیکھتا جا
-----------------------------------------------------------
منزل جو میں نے پائی تو ششدر بھی میں ہی تھا
وہ اس لیے کہ راہ کا پتھر بھی میں ہی تھا
شک ہو چلا تھا مجھ کو خود اپنی ہی ذات پر
جھانکا تو اپنے خول کے اندر بھی میں ہی تھا
ہوں گے مرے وجود کے سائے الگ الگ
ورنہ برون در بھی پس در بھی میں ہی تھا
پوچھ اس سے جو روانہ ہوئے کاٹ کر مجھے
راہ وفا میں شاخ صنوبر بھی میں ہی تھا
آسودہ جس قدر وہ ہوا مجھ کو اوڑھ کر
کل رات اس کے جسم کی چادر بھی میں ہی تھا
مجھ کو ڈرا رہی تھی زمانے کی ہم سری
دیکھا تو اپنے قد کے برابر بھی میں ہی تھا
آئینہ دیکھنے پہ جو نادم ہوا قتیلؔ
ملک ضمیر کا وہ سکندر بھی میں ہی تھا
وہ اس لیے کہ راہ کا پتھر بھی میں ہی تھا
شک ہو چلا تھا مجھ کو خود اپنی ہی ذات پر
جھانکا تو اپنے خول کے اندر بھی میں ہی تھا
ہوں گے مرے وجود کے سائے الگ الگ
ورنہ برون در بھی پس در بھی میں ہی تھا
پوچھ اس سے جو روانہ ہوئے کاٹ کر مجھے
راہ وفا میں شاخ صنوبر بھی میں ہی تھا
آسودہ جس قدر وہ ہوا مجھ کو اوڑھ کر
کل رات اس کے جسم کی چادر بھی میں ہی تھا
مجھ کو ڈرا رہی تھی زمانے کی ہم سری
دیکھا تو اپنے قد کے برابر بھی میں ہی تھا
آئینہ دیکھنے پہ جو نادم ہوا قتیلؔ
ملک ضمیر کا وہ سکندر بھی میں ہی تھا
------------------------------------------------
کیا عشق تھا جو باعث رسوائی بن گیا
یارو تمام شہر تماشائی بن گیا
بن مانگے مل گئے مری آنکھوں کو رت جگے
میں جب سے ایک چاند کا شیدائی بن گیا
دیکھا جو اس کا دست حنائی قریب سے
احساس گونجتی ہوئی شہنائی بن گیا
برہم ہوا تھا میری کسی بات پر کوئی
وہ حادثہ ہی وجہ شناسائی بن گیا
پایا نہ جب کسی میں بھی آوارگی کا شوق
صحرا سمٹ کے گوشۂ تنہائی بن گیا
تھا بے قرار وہ مرے آنے سے پیشتر
دیکھا مجھے تو پیکر دانائی بن گیا
کرتا رہا جو روز مجھے اس سے بدگماں
وہ شخص بھی اب اس کا تمنائی بن گیا
وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ
پھر کیا ہوا اگر کوئی ہرجائی بن گیا
یارو تمام شہر تماشائی بن گیا
بن مانگے مل گئے مری آنکھوں کو رت جگے
میں جب سے ایک چاند کا شیدائی بن گیا
دیکھا جو اس کا دست حنائی قریب سے
احساس گونجتی ہوئی شہنائی بن گیا
برہم ہوا تھا میری کسی بات پر کوئی
وہ حادثہ ہی وجہ شناسائی بن گیا
پایا نہ جب کسی میں بھی آوارگی کا شوق
صحرا سمٹ کے گوشۂ تنہائی بن گیا
تھا بے قرار وہ مرے آنے سے پیشتر
دیکھا مجھے تو پیکر دانائی بن گیا
کرتا رہا جو روز مجھے اس سے بدگماں
وہ شخص بھی اب اس کا تمنائی بن گیا
وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ
پھر کیا ہوا اگر کوئی ہرجائی بن گیا
---------------------------------------------------------
مرحلہ رات کا جب آئے گا
جسم سائے کو ترس جائے گا
چل پڑی رسم جو کج فہمی کی
بات کیا پھر کوئی کر پائے گا
سچ سے کترائے اگر لوگ یہاں
لفظ مفہوم سے کترائے گا
اعتبار اس کا ہمیشہ کرنا
وہ تو جھوٹی بھی قسم کھائے گا
تو نہ ہوگی تو پھر اے شام فراق
کون آ کر ہمیں بہلائے گا
ہم اسے یاد بہت آئیں گے
جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا
کائنات اس کی مری ذات میں ہے
مجھ کو کھو کر وہ کسے پائے گا
نہ رہے جب وہ بھلے دن بھی قتیلؔ
یہ زمانہ بھی گزر جائے گا
----------------------------------------------------
جسم سائے کو ترس جائے گا
چل پڑی رسم جو کج فہمی کی
بات کیا پھر کوئی کر پائے گا
سچ سے کترائے اگر لوگ یہاں
لفظ مفہوم سے کترائے گا
اعتبار اس کا ہمیشہ کرنا
وہ تو جھوٹی بھی قسم کھائے گا
تو نہ ہوگی تو پھر اے شام فراق
کون آ کر ہمیں بہلائے گا
ہم اسے یاد بہت آئیں گے
جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا
کائنات اس کی مری ذات میں ہے
مجھ کو کھو کر وہ کسے پائے گا
نہ رہے جب وہ بھلے دن بھی قتیلؔ
یہ زمانہ بھی گزر جائے گا
----------------------------------------------------
رنگ جدا آہنگ جدا مہکار جدا
پہلے سے اب لگتا ہے گلزار جدا
نغموں کی تخلیق کا موسم بیت گیا
ٹوٹا ساز تو ہو گیا تار سے تار جدا
بے زاری سے اپنا اپنا جام لیے
بیٹھا ہے محفل میں ہر مے خوار جدا
ملا تھا پہلے دروازے سے دروازہ
لیکن اب دیوار سے ہے دیوار جدا
یارو میں تو نکلا ہوں جاں بیچنے کو
تم کوئی اب سوچو کاروبار جدا
سوچتا ہے اک شاعر بھی اک تاجر بھی
لیکن سب کی سوچ کا ہے معیار جدا
کیا لینا اس گرگٹ جیسی دنیا سے
آئے رنگ نظر جس کا ہر بار جدا
اپنا تو ہے ظاہر و باطن ایک مگر
یاروں کی گفتار جدا کردار جدا
مل جاتا ہے موقعہ خونی لہروں کو
ہاتھوں سے جب ہوتے ہیں پتوار جدا
کس نے دیا ہے سدا کسی کا ساتھ قتیلؔ
ہو جانا ہے سب کو آخر کار جدا
-----------------------------------------------
پہلے سے اب لگتا ہے گلزار جدا
نغموں کی تخلیق کا موسم بیت گیا
ٹوٹا ساز تو ہو گیا تار سے تار جدا
بے زاری سے اپنا اپنا جام لیے
بیٹھا ہے محفل میں ہر مے خوار جدا
ملا تھا پہلے دروازے سے دروازہ
لیکن اب دیوار سے ہے دیوار جدا
یارو میں تو نکلا ہوں جاں بیچنے کو
تم کوئی اب سوچو کاروبار جدا
سوچتا ہے اک شاعر بھی اک تاجر بھی
لیکن سب کی سوچ کا ہے معیار جدا
کیا لینا اس گرگٹ جیسی دنیا سے
آئے رنگ نظر جس کا ہر بار جدا
اپنا تو ہے ظاہر و باطن ایک مگر
یاروں کی گفتار جدا کردار جدا
مل جاتا ہے موقعہ خونی لہروں کو
ہاتھوں سے جب ہوتے ہیں پتوار جدا
کس نے دیا ہے سدا کسی کا ساتھ قتیلؔ
ہو جانا ہے سب کو آخر کار جدا
-----------------------------------------------
آخر وہ میرے قد کی بھی حد سے گزر گیا
کل شام میں تو اپنے ہی سائے سے ڈر گیا
مٹھی میں بند کیا ہوا بچوں کے کھیل میں
جگنو کے ساتھ اس کا اجالا بھی مر گیا
کچھ ہی برس کے بعد تو اس سے ملا تھا میں
دیکھا جو میرا عکس تو آئینہ ڈر گیا
ایسا نہیں کہ غم نے بڑھا لی ہو اپنی عمر
موسم خوشی کا وقت سے پہلے گزر گیا
لکھنا مرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف
"مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا"
کل شام میں تو اپنے ہی سائے سے ڈر گیا
مٹھی میں بند کیا ہوا بچوں کے کھیل میں
جگنو کے ساتھ اس کا اجالا بھی مر گیا
کچھ ہی برس کے بعد تو اس سے ملا تھا میں
دیکھا جو میرا عکس تو آئینہ ڈر گیا
ایسا نہیں کہ غم نے بڑھا لی ہو اپنی عمر
موسم خوشی کا وقت سے پہلے گزر گیا
لکھنا مرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف
"مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا"
--------------------------------------------------------
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں