تحریریں - بیسٹ اردو پوئٹری پی

پیر، 2 ستمبر، 2019

تحریریں



❤

                                                                   دل کی آواز 



................دل چاہتا ہے یونہی سوئی رہو تم
میرے بازو کو تکیہ بنا کر
میری دو انگلیاں الجھی رہیں تمہارے گھنگریالے بالوں میں
میری نظر ٹکی رہے تمہارے
گالوں پر ۔۔
تمہاری آنکھوں کو بند ہوتا دیکھ
کر شرارت سے میں پھونک ماروں
تمہارے چہرے پر تم پھر سے آنکھیں کھولو تمہارے ہونٹ جو بند کلی سی صورت میں ہیں وہ کھل جائیں تم مسکرا کر اپنی بانہوں میں جکڑو مجھے اور میں تمہاری گردن پر
اپنے پیار کا اک نشان چھوڑ دوں
یوں ہی سوئی رہو پیاری شہزادی ❤
تم میرے اتنے قریب ہو کے تمہاری گرم سانسیں میری سانسوں سے
مل رہی ہیں ۔۔
میری یہ سانسیں تمہارے پاس میری امانت ہیں سمبھال کر رکھنا انہیں
ہمیشہ اپنی سانسوں میں !!
جانان تم محبت ہو ❤
تم سانس لیتی گڑیا ہو 💚
تم دل کی دھڑکن چلانے والا ایک آلا ہو 💙
تمہاری ہنسی اگر کوئی جل پری
دیکھ لے تو وہ خدا سے ایک جنم اور مانگے جس میں وہ تمہاری جیسی بننا چاہے اور تمہاری جیسی ہنسی
سے ناجانے کتنی ہی سمندری محلوق کے دل ڈبو دے ویسے ہی
جیسے میرا دل ڈوب گیا ہے تمہاری ہنسی میں 💛
تم چاندنی ہو چودیں رات کے چاند کی جس نے روشن کیا ہوا ہے
اماوس کی رات جیسے میرے دل کو 💜
لفظ تمہاری خوبصورتی کبھی بیان ہی نہیں کر سکتے
جاناں تم وہ ہو جس سے محبت کو بھی محبت ہے 💗
.............................................................
محبت لفظ تھا میرا
عرش صدیقی
میں اس شہر خرابی میں فقیروں کی طرح در در پھرا برسوں
اسے گلیوں میں سڑکوں پر
گھروں کی سرد دیواروں کے پیچھے ڈھونڈھتا تنہا
کہ وہ مل جائے تو تحفہ اسے دوں اپنی چاہت کا
تمنا میری بر آئی کہ اک دن ایک دروازہ کھلا اور
میں نے دیکھا وہ شناسا چاند سا چہرہ
جو شادابی میں گلشن تھا
میں اک شان گدایانہ لیے اس کی طرف لپکا
تو اس نے چشم بے پروا کے ہلکے سے اشارے سے مجھے روکا
اور اپنی زلف کو ماتھے پہ لہراتے ہوئے پوچھا
کہو اے اجنبی سائل
گدائے بے سر و ساماں
تمہیں کیا چاہیے ہم سے
میں کہنا چاہتا تھا عمر گزری جس کی چاہت میں
وہی جب مل گیا تو اور اب
کیا چاہے مجھ کو
مگر تقریر کی قوت نہ تھی مجھ میں
فقط اک لفظ نکلا تھا لبوں سے کانپتا ڈرتا
جسے امید کم تھی اس کے دل میں بار پانے کی
محبت لفظ تھا میرا
مگر اس نے سنا روٹی۔
...............    ........................        ...........:(
دوسری عورت !
..............................ء
برف گرتی رہی
گرم کمرے کی ٹھنٹدے پسینے میں ڈُوبی ہوئی کھڑکیوں سے پرے
برف گرتی رہی
فُون پکڑے ہوئے
اپنے کمرے میں آرام کُرسی پہ ساکت پڑی
میں بلکتی رہی
شام کی بات ہے
روز کی طرح تُم آج بھی اپنے کاموں سے فارغ ہوئے
کار میں بیٹھ کر
فُون پہ مُجھ کو میٹھے سُروں میں گئے دن کی باتیں سُناتے رہے
میں بھی ہنستی رہی
بات سُنتی رہی
مشورے بھی دئیے
اور میری مُحبت میں ڈُوبے ہوئے
تُم نے پندرہ منٹ کا یہ تھورا سا رستہ
کوئی گھنٹہ بھر میں مُکمل کیا
گھر کے گیراج میں ٹھہر  کے بات کی
  فُون پہ پھر یہ میں نے سُنا
""بیٹا کھانے کی ٹیبل پہ برتن لگاؤ
  "تُمہارے پپا آگئے ہیں
گھر کے اندر سےآئی بڑی گرم جوشی میں ڈُوبی صدا
تُم نے بےحد مُحبت سے کل پھر سے ملنے کا وعدہ کیا
فُون کو بند کیا
مشرقی دیوتا بن کے گھر کو چلے
اور میں
گھر سے باہر کی اک دلرُبا کی طرح
اپنے ہونے نہ ہونے کی تکرار میں
خُود سے اُلجھی ہوئی
فُون پکڑے ہوئے
اپنے کمرے میں آرام کُرسی پہ ساکت پڑی
خُود سے آنکھیں چُراتی سسکتی رہی
برف گرتی رہی.
............... .            ...............
  .

مجھے میری ناف سے نیچے دیکھنے والے
میری ناف کے پہلو میں میری کوکھ بھی موجود ہے
جہاں تمھارے جیسی کئی کائناتوں کی تجسیم کی گنجائش
رکھ دی گئی ہے
اور اس سے ذرا اوپر مرا دل ہے
جہاں عمر بھر کی محبتوں کا اتنا زیادہ۔ بہی کھاتا لکھا جاتا ہے
کہ اب یہاں عبادت گاہوں سے ذیادہ تقدس گونجتا ہے
اور یہی کہیں قریب سے ہی تمھاری پہلی 
غذا کی دھارائیں نکلتی ہیں
اور اس دل سے اوپر میری زبان ہے جہاں
الف کے بےنقاط اور ب کے تمام نقاطـ
کے ذائقے دے دیے گئے ہیں 
اور اس دہن سے اوپر میری آنکھ ہے
جو چشم آہو کے علاوہ گمان و یقین کو اپنی 
روشنی کی لگام سے باندھنا جا نتی ہے
اور ان آنکھوں سے اوپر ایک دماغ ہے 
جس کے اعصابی 
ریشوں کے درمیان شعور سے لاشعور تک 
کے سارے توازن رکھے گئے ہیں
مجھے میری ناف سے نیچے دیکھنے والے 
شائد اسی لئے میرے قدموں کے نیچے جنتیں رکھ دی گئی ہیں 
-----------------------------------------------------------------

قبول ہے۔۔۔ قبول ہے۔۔۔ قبول ہے


آج وہ صبح صبح ہی میرے گھر آگئے۔۔۔
اور دروازہ کھولتے ہی اُنھوں نے پوچھا
کیسی ہو؟
ٹھیک ہوں۔۔۔ آپ کیسے ہیں؟ خیریت تو ہے آج اکیلے وہ بھی اتنی صبح
آنٹی کہاں ہے؟
سانس تو لے لو میری پیاری دوست ۔۔۔ ایک ساتھ سوالوں کی بارش کردی
خیر میں تو ٹھیک نہیں ہوں
اور امی گھر پر ہی ہیں , انھیں بتائے بغیر آیا ہوں
کیوں کیا ہوا آپ کو۔۔۔ دکھائیں تو ماتھا چیک کروں۔۔۔بخار تو نہیں ہے بلکل۔۔۔پھر کیا ہوگیا طبیعت کو؟
بخار تو ہے میڈم۔۔۔
جناب ڈاکٹر میں بن رہی ہوں یا آپ؟
کوئی بخار نہیں ہے۔
عشق کا بخار ہے جو تمھیں نظر نہیں آرہا
اوو اچھا ۔۔۔ لویریا ہوگیا ہے صاحب کو
ایسا ہی سمجھ لو۔۔۔
ویسے آنٹی کو بغیر بتائے کیوں آگئے؟
کچھ کام تھا اسلیے
ایسا بھی کیا کام ہے جو اجازت بھی طلب نہیں کی ان سے اور گھوڑے پہ سوار ہوگئے
بس تم سے کچھ پوچھنے آیا ہوں
اچھا!! پوچھیں پھر۔۔۔
اندر نہیں بلاؤ گی؟ لگتا ہے یہی دروازے پہ کھڑے ساری باتیں کرنی ہے
ارے نہیں۔۔۔ آئیے اندر
شکریہ۔۔۔ آؤ میرے ساتھ بیٹھو
بیٹھ جاتی ہوں پر امی کو تو بلانے دیں
امی کا کیا کام؟
امی کا کام نہیں ہے پر ان کے علم میں ہونا چاہئیے کہ میرے دوست بِن بلائے گھر آگئے ہیں۔۔۔ بس آئی ابھی بتا کر
رکو لڑکی۔۔۔کہیں نہیں جا رہی تم
چپ چاپ یہاں بیٹھو اور میری بات کا جواب دو
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ پر اگر امی نے ڈانٹا تو آپ ہی سنبھالنا پھر
سنبھال لونگا سب۔۔۔ چلو بتاؤ! مجھے کس طرح کی لڑکی پسند ہے؟
میں کیسے بتاؤں ۔۔۔ مجھے کیا علم ہوگا
تم نے ہی تو کہا تھا کہ تم مجھے سب سے زیادہ جانتی ہو تو اب بتاؤ۔۔۔ دیکھوں تو کتنا جانتی ہو
اچھا بتاتی ہوں پر یہ اتنی صبح لڑکی کے بارے میں سوال کرنے کیوں آگئے ہیں؟
تھوڑا انتظار کر لیتے, کل جب یُونی آتی تب پوچھ لیتے
بس نہیں ہوا انتظار۔.
اہم۔۔۔دال میں بہت کچھ کالا ہے, ویسے یہ اچانک ویٹامن شی کی کمی کیوں محسوس ہونے لگ گئی ہے۔۔۔ کہیں شادی کا ارادہ تو نہیں ہے؟
ہاں بلکل۔ شادی ہی کرنی ہے
اب بتاؤ بھی
اچھا جی تو سنے
مجھے لگتا ہے آپ کو باحیاء, باوفا, باادب, فرمانبرداد اور ہر بات پر ریکٹ کرنے والی, آپ کا خیال کرنے والی, آپ کے گھر والوں کا احساس کرنے والی, سب کو جوڑ کر رکھنے والی, آپ کے غصے پر خاموش ہوجانے والی اور وہ جو شکل سے ہو نہ ہو لیکن دِل سے خوبصورت ہو۔۔۔مطلب گوری ہو چاہے کالی ہو پر دل والی ہو
ایسی لڑکیاں پسند ہونگی آپ کو بلکل میرے جیسی۔
تمھارے جیسی کیوں؟
کیوں کہ مجھ میں بھی مزکورہ جراثیم پائے جاتے ہیں
اچھا اچھا اب تکیے تو مت۔۔۔ چلو میرے جیسی نہیں بلکہ مجھ سے کافی بہتر پسند ہوگی آپ کو۔۔۔
ارے نہیں تم سے بہتر کون ہوگا۔۔۔
میں سمجھی نہیں۔۔۔ کیا مطلب؟
میرا مطلب ہے کہ تمھارے جییییییسی کیوں؟ تم کیوں نہیں۔۔۔
اس وقت میری سانسیں تھم گئی جیسے اور مجھے یوں لگا جیسے ہر بےجان چیز مجھے تک رہی ہو
پر میں کچھ کہہ ہی نہیں پائی کیونکہ ان کا یہ سوال میرے وہم و گمان سے بالاتر تھا
میرے ہاتھ ٹھنڈے ہوگئے تھے
اور میں حیران تھی کہ وہ دوست تھا میرا اور اب۔۔۔
خیر میں خاموش رہی اور نظریں جھکی ہوئی تھی
کہ اس نے اچانک پوچھا مجھ سے شادی کرو گی؟
بس پھر کیا ہونا تھا میری زبان سے تو سارے الفاظ حضف ہوگئے تھے
پر میری مسکراہٹ نے کہہ دیا قبول ہے, قبول ہے, قبول ہے۔۔۔
.............................................................

تمھیں پتا ہے ؟
اذیت کیا ہے ؟
چلو میں بتاوں ؟
میرا تمھیں اپنا کاءینات سمجھنا اور'
میرا تم کو چاھنا اور ایسے چاھنا ،
کہ میری سوچوں میرے خوابوں میرے شام وسحر میں تمھرا ہی رہنا
اور پھر تمھارا یہ بتانا
کہ
تم تو کسی اور کو چاھتے ہو
تمہارے خواب و خیال کسی اور کے لیے
جاناں
تم کیا جانو
اذیت کیا ہے۔

-----------------------------------------------------
مجھے تمہاری بہت یاد آتی ہے
تمہیں اس کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے کیا ؟؟
تم تھکتی نہیں ہو۔۔؟
مجھے بہت کام ہیں
میں گھر کا ذمہ دار ہوں
مجھے چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھانا ہے
ان کو زندگی گزارنا سکھانا ہے
اُن کے مستقبل کا سوچنا ہے
تم ایک محبت لے کہ بیٹھ گئی ہو
ہاں کوئی کام نہیں مجھے
مجھے اس کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں
میں سوتے جاگتے ،اُٹھتے بیٹھتے تمیں سوچتی ہوں
جہاں پہلی بار تمہیں دیکھا تھا
میں وہاں سے آج تک اُٹھ ہی نہیں پائی
یاد ہے تمہیں اپنا پہلا وعدہ؟؟
کہ میں ہر وعدہ نبھاؤں گا؟
تم بھول گے مگر
میں بات کروں تو تمھیں بولتی ہوں
میں خاموش رہوں تو تمھیں سوچتی ہوں
پتا ہے جو تصویر بابا نے تمھاری جلا دی تھی
اسکی راکھ آج بھی میرے بیگ میں ہے
تمھاری دی ہوئی ہر چیز حتی کہ وہ اخبار بھی
جس میں تم نے چوڑیاں ڈال کہ دی تھی؟؟
وہ اخبار بھی سنبھال کہ رکھی ہوئی ہے میں نے
میں سوچتی ہوں وہ سب جلادوں مگر
وہ راکھ کیسے جلاؤں ؟؟؟
یاد ہے تم نے مجھے منع کیا تھا کسی سی بات نا کروں
اس کے بعد ایک ایک کر کہ میرے سب رشتے ٹوٹ گئے
میں نے ہر وعدہ نبھایا مگر تم اپنا پہلا وعدہ بھی نا نبھا سکے
کتنے کچے نکلے نا تم ۔۔۔۔۔!
تم نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی فیل ہوگے
دیکھو مجھے آج بھی انتظار ہے
کہ تم آؤ گے اور اپنے ہاتھوں سے اس اخبار سے چوڑیاں نکال کہ پہناؤ گے مجھے
اس راکھ سے اک تصویر بناؤ گے
سنو ۔۔۔!
میں پاگل ہوں مجھے کوئی اور کام ہی نہیں ہے
میری محبت تم سے شروع ہو کہ تم پہ ختم
تمھارے سب شکوے شکائتیں بجا ہیں
اتنا کہنے کا حق دے دو کہ
میں جنت میں اللہ میاں سے تمھیں مانگوں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خضر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔

زندگی میں اکثر لوگ اچانک داخل ہوتے ہیں
کبھی دوستی کا روپ دھارے تو کبھی محبت کا
اور ہم اُس انجان فرشتے کو بڑے ٹھاٹ سے مرحبا کہتے ہیں۔۔۔کیونکہ اُس وقت ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ فرشتے کے روپ میں ایک شیطان ہے
جسے ہمیں اہلاً وّ سھلاً وَ مرحبا نہیں بلکہ اہلاً وّ سھلاً وَ مَر بےحیا کہنا چاہئے تھا
کیونکہ یہ لوگ اپنی الفت اور محبت سے ہمارے دل میں گھر کرتے ہیں اور پھر اس گھر کو ویران کر کے چلے جاتے ہیں
زرا سوچیں۔۔۔ ایک دل جو ابھی خالی ہے
اس دل کو کوئ اپنی الفت سے خریدے
اس دل میں وہ اپنی محبت سے جگہ بنائے
اس جگہ میں اپنی منفرد اداؤں سے گھر کرے
اس گھر میں اپنی توجہ سے خوشیاں بسائے
اپنی معصومیت, اپنے انداز سے وہاں رونق لگائے
پھر اک دِن اچانک رحلت کرجائے۔
تو کیا حالت رہے گی اس گھر کی؟
اور وہ گھر کرائے پر بھی نہیں چڑھ سکے گا
کیونکہ اِس کو چھوڑ جانے والے کا سامان یاد کی صورت موجود ہے وہاں,
تو کتنا خسارہ ہوا نا کہ نہ دل کی جگہ بچی اور نہ اُس جگہ میں اپنی جگہ بنانے والا 💔
واللہ لوگ ایسا ہی کرتے ہیں, آتے ہیں محبت جگاتے ہیں اور فرار ہوجاتے ہیں
اور اس محبت سے کوئی مخالف جنس کی محبت اخز نہ کرے
یہ وہ محبت ہے جو کبھی کسی کو دوست کے روپ میں تو کبھی بہن تو کبھی بھائ وغیرہ کے روپ میں ملتی ہے
بس جانے والے نہیں رکتے
اور انھیں روکنا بھی غلط ہے
جب کوئی جارہا ہو تو اسے دروازے تک چھوڑ کر آجاؤ
نہ کہ اُسکے سامنے دروازہ بن کر کھڑے ہوجاؤ اس امید کے ساتھ کہ وہ نہ جائے۔۔۔
کیونکہ کوئی مان نہیں رکھتا الٹا خود اپنا ہی بھرم ٹوٹ جاتا ہے کہ میری پکار پر وہ جانے والا رک جائے گا
اس سے تو بہتر ہے اُسے خیرباد کرکے کہہ دو :- کہ اگر آپ کو نہیں ہماری ضرورت تو ہم بھی آپ کے بنا مر نہیں جائینگے۔۔۔
یہ تو ہے کہ کوئی نہیں مرتا پر زندہ بھی نہیں رہتا لیکن جانے والے کو کون سمجھائے
بس اس ازیت کو وہی محسوس کر سکتا ہے جس پر یہ قیامت خیز وقت بیتا ہو۔۔۔
جو اس حادثے کے بعد بھی مر کر جیتا ہو۔۔۔
بس وہی محسوس کرسکتا ہے۔
11/11/2018-

--------------------------------------------------------
کہاں ہو تم ؟؟؟
بتاؤ گی!.....
ہُوا ایسا بھی کیا مُجھ سے ؟؟؟
جو اتنی بے رُخی پر تم اُتر آئی اچانک ہی......
کہ اس قابل بھی نہ سمجھا مجھے خود سے جُدا کرتے!!.....
بتانا ہی مناسب ہو ....
"کہ دل اب بھر گیا مُجھ سے"
قسم سے مان لو جاناں!
میں سب ہنس کے یہ سہہ لیتا..
میری باتیں,
میری عادت,
میرا چہرہ,
میرا لہجہ,
وہی ہیں جیسے پہلے تھے.....
ہاں! بدلہ ہے تو سوچوں کو تمہاری سوچ سا کرنے کی خاطر بس!
مگر پھر بھی.......
تمہیں حق ہے!!!
میری سوچوں,
میری باتوں,
میرے چہرے,
میرے لہجے,
میری عادات سے اُکتا گئی ہو تو سبھی رستے بدل ڈالو......
تمہیں حق ہے!!!
مگر جاناں....
گلہ تم سے نہیں ہرگز.....
شکایت ہے بس اتنی سی!!!
کہ....
"اس بے نام سے رشتے میں جس کو
دوستی کہہ لو...
یا پھر چاہت,محبت,عاشقی کہہ لو...
یا پھر جھُوٹی مُروّت یا کوئی بھی نام دو اِسکو.......
کہ اس رشتے میں مجھ سے مُخلصی کا کوئی پہلُو رہ گیا ہے تو میں مُجرم ہوں..
مگر کتنے ہی عرصے سے کسی گُمنام منزل کے سفر میں گامزن تھے ہم....
کوئی بھی تیسرا نہ تھا....
سِوا رب کے ؟؟؟؟
میری بس مُخلصی کا یہ تقاضہ تھا!!!
سفر میں چھوڑنا ہی تھا تو رسماً ہی اجازت اور دُعا لے کر جُدا ہوتے...
مگر پھر بھی!!
دعا ہے جاؤ....
ہمیشہ منزلیں پاؤ.....
میری آہیں میری سِسکی تمہیں ہرگز نہ روکیں گی!
تمہاری منزلوں سے جاں...
مگر میرے بھٹکنے سے میرے اخلاص کو گالی نہ دینا بس
یہی میری تمنا ہے!
یہی ہے اِلتجا آخِر یہی ہے اِلتماس آخر ۔
خضر کرمپور

----------------------------------------------------------


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں