ساغر صدیقی - بیسٹ اردو پوئٹری پی

اتوار، 15 ستمبر، 2019

ساغر صدیقی


محفلیں لٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

ہر مسرت غم دیروز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا

ان گنت محفلیں محروم چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑ دیا

آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا

جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
ان محبت کی روایات نے دم توڑ دیا

جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا

ہائے آداب محبت کے تقاضے ساغرؔ
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا
----------------------------------------------
میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا

چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

دنیائے حادثات ہے اک دردناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

ساغرؔ وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجیے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا
-------------------------------------------------
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو

بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے
ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو

آج ہم بھی تری وفاؤں پر
مسکرائیں تو کیا تماشا ہو

تیری صورت جو اتفاق سے ہم
بھول جائیں تو کیا تماشا ہو

وقت کی چند ساعتیں ساغرؔ
لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو
----------------------------------------------------
اے دل بے قرار چپ ہو جا
جا چکی ہے بہار چپ ہو جا

اب نہ آئیں گے روٹھنے والے
دیدۂ اشک بار چپ ہو جا

جا چکا کاروان لالہ و گل
اڑ رہا ہے غبار چپ ہو جا

چھوٹ جاتی ہے پھول سے خوشبو
روٹھ جاتے ہیں یار چپ ہو جا

ہم فقیروں کا اس زمانے میں
کون ہے غم گسار چپ ہو جا

حادثوں کی نہ آنکھ کھل جائے
حسرت سوگوار چپ ہو جا

گیت کی ضرب سے بھی اے ساغرؔ
ٹوٹ جاتے ہیں تار چپ ہو جا
-------------------------------------------------
تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا
افسردگی کا روپ ترانوں نے لے لیا

جس کو بھری بہار میں غنچے نہ کہہ سکے
وہ واقعہ بھی میرے فسانوں نے لے لیا

شاید ملے گا قریۂ مہتاب میں سکوں
اہل خرد کو ایسے گمانوں نے لے لیا

یزداں سے بچ رہا تھا جلالت کا ایک لفظ
اس کو حرم کے شوخ بیانوں نے لے لیا

تیری ادا سے ہو نہ سکا جس کا فیصلہ
وہ زندگی کا راز نشانوں نے لے لیا

افسانۂ حیات کی تکمیل ہو گئی
اپنوں نے لے لیا کہ بیگانوں نے لے گیا

بھولی نہیں وہ قوس قزح کی سی صورتیں
ساغرؔ تمہیں تو مست دھیانوں نے لے لیا
-------------------------------------------------
اے حسن لالہ فام! ذرا آنکھ تو ملا
خالی پڑے ہیں جام! ذرا آنکھ تو ملا

کہتے ہیں آنکھ آنکھ سے ملنا ہے بندگی
دنیا کے چھوڑ کام! ذرا آنکھ تو ملا

کیا وہ نہ آج آئیں گے تاروں کے ساتھ ساتھ
تنہائیوں کی شام! ذرا آنکھ تو ملا

یہ جام یہ سبو یہ تصور کی چاندنی
ساقی کہاں مدام! ذرا آنکھ تو ملا

ساقی مجھے بھی چاہئے اک جام آرزو
کتنے لگیں گے دام! ذرا آنکھ تو ملا

پامال ہو نہ جائے ستاروں کی آبرو
اے میرے خوش خرام! ذرا آنکھ تو ملا
ہیں راہ کہکشاں میں ازل سے کھڑے ہوئے
ساغرؔ ترے غلام! ذرا آنکھ تو ملا
---------------------------------------------------
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے کا نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں

شمع جسکی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے ، فنا ہوتا نہیں

اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو انکا طور پر بھی سامنا ہوتا نہیں

ہر شناور کو نہیں ملتا طلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں

ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں

ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھکو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں
------------------------------------------------------
ﺟﻮ ﺣﺎﺩﺛﮯ ﯾﮧ ﺟﮩﺎﮞ
ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ

ﺑﮍﮮ ﺧﻠﻮﺹ ﺳﮯ ﺩﻝ ﻧﺬﺭِ
ﺟﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ

ﮨﻤﯿﮟ ﺳﮯ ﻗﻮﺱِ ﻗﺰﺡ ﮐﻮ
ﻣِﻠﯽ ﮨﮯ ﺭﻧﮕﯿﻨﯽ

ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭ ﭘﮧ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻗﯿﺎﻡ
ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ

ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭼﺎﮎِ ﮔﺮﯾﺒﺎﮞ ﺳﮯ
ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮ

ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮩﺎﺭ ﮐﺎ ﺳﻮﺭﺝ ﺳﻼﻡ
ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ

ﯾﮧ ﻣﯿﮑﺪﮦ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﮨﺮ
ﺍﯾﮏ ﺷﮯ ﮐﺎ ﺣﻀﻮ

ﻏﻢِ ﺣﯿﺎﺕ ﺑﮩﺖ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ
ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ

ﻓﻘﯿﮩﮧِ ﺷﮩﺮ ﻧﮯ ﺗُﮩﻤﺖ
ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺳﺎﻏﺮ ﭘﺮ

ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺩﻭﻟﺖ
ﮐﻮ ﻋﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
------------------------------------------
بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے

منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے

میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے

نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے

گُم صُم کھڑی ہیں‌دونوں جہاں کی حقیقتیں
میں اُن سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے

ساغر کسی کے حُسنِ تغافل شعار کی
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے
----------------------------------------------------

کب سماں تھا بہار سے پہلے
غم کہاں تھا بہار سے پہلے

ایک ننھا سا آرزو کا دیا
ضوفشاں تھا بہار سے پہلے

اب تماشا ہے چار تنکوں‌کا
آشیاں تھا بہار سے پہلے

اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے

پچھلی شب میں خزان کا سناٹا
ہم زباں‌تھا بہار سے پہلے

چاندنی میں ‌یہ آگ کا دریا
کب رواں تھا بہار سے پہلے

بن گیا ہے سحابِ موسمِ گل
جو دھواں تھا بہار سے پہلے

لُٹ گئی دل کی زندگی ساغر
دل جواں‌تھا بہار سے پہلے
-------------------------------------------------

دو جہانوں کی خبر رکھتے ہیں
بادہ خانوں کی خبر رکھتے ہیں

خارزاروں سے تعلق ہے ہمیں
گُلستانوں کی خبر رکھتے ہیں


ہم اُلٹ دیتے ہیں صدیوں کے نقاب
ہم زمانوں کی خبر رکھتے ہیں


اُن کی گلیوں کے مکینوں کی سُنو
لا مکانوں کی خبر رکھتے ہیں


چند آوارہ بگولے اے دوست
کاروانوں کی خبر رکھتے ہیں


زخم کھانے کا سلیقہ ہو جنہیں
وہ نشانوں کی خبر رکھتے ہیں


کُچھ زمینوں کے ستارے ساغرؔ
 آسمانوں کی خبر رکھتے ہیں
--------------------------------------------

چاکِ دامن کو جو دیکھا تو مِلا عید کا چاند
اپنی تقدیر کہاں بُھول گیا عید کا چاند

اُن کے اَبروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے
اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چُھپا عید کا چاند

جانے کیوں آپ کے رُخسار مہک اُٹھتے ہیں
جب کبھی کان میں چپکے سے کہا عید کا چاند

دُور ویران بسیرے میں دِیا ہو جیسے
غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عِید کا چاند

لے کے حالات کے صحراؤں میں آ جاتا ہے
آج بھی خُلد کی رنگین فضا عید کا چاند

تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں
گھول کر دَرد کے ماروں نے پیا عید کا چاند

چشم تو وُسعتِ افلاک میں کھوئی ساغرؔ
دِل نے اِک اور جگہ ڈھونڈ لیا عید کا چاند
--------------------------------------------------------



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں