علامہ اقبال شاعری - بیسٹ اردو پوئٹری پی

جمعرات، 19 ستمبر، 2019

علامہ اقبال شاعری


https://besturdupoetryp.blogspot.com/2019/09/blog-post_11.html

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا

گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا

کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا

سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پر استوار ہوگا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خار ہوگا

دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا ہے جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا

چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا

جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا

کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پاگل ہیں
تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شہہ نشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا

نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر راہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا
-----------------------------------------------------
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق

علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگرچہ ہیں رازیؔ کے نکتہ ہاے دقیق

مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

اسی طلسم کہن میں اسیر ہے آدم
بغل میں اس کی ہیں اب تک بتان عہد عتیق

مرے لیے تو ہے اقرار بااللساں بھی بہت
ہزار شکر کہ ملا ہیں صاحب تصدیق

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
-----------------------------------------------------
کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش
اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش

کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و مے خانہ ہیں مدت سے خموش

میں نے پایا ہے اسے اشک سحرگاہی میں
جس در ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش

نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگونہ فروش

صاحب ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش
-----------------------------------------------------
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
-----------------------------------------
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
------------------------------------
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوز نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے
نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا ہے
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبالؔ اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے
نوائے صبح گاہی نے جگر خوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے
-----------------------------------
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر
بیگانہ شے پہ نازش بے جا بھی چھوڑ دے
لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
شبنم کی طرح پھولوں پہ رو اور چمن سے چل
اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی حرم بھی کلیسا بھی چھوڑ دے
سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے
شوخی سی ہے سوال مکرر میں اے کلیم
شرط رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
-----------------------------------
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
عطارؔ ہو رومیؔ ہو رازیؔ ہو غزالیؔ ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی
نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہٰی
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
--------------------------------------------
ظاہر کي آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئي
ہو ديکھنا تو ديدہء دل وا کرے کوئي
منصور کو ہوا لب گويا پيام موت
اب کيا کسي کے عشق کا دعوي کرے کوئي
ہو ديد کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے ديکھنا يہي کہ نہ ديکھا کرے کوئي
ميں انتہائے عشق ہوں ، تو انتہائے حسن
ديکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئي
عذر آفرين جرم محبت ہے حسن دوست
محشر ميں عذر تازہ نہ پيدا کرے کوئي
چھپتي نہيں ہے يہ نگہ شوق ہم نشيں!
پھر اور کس طرح انھيں ديکھا کر ے کوئي
اڑ بيٹھے کيا سمجھ کے بھلا طور پر کليم
طاقت ہو ديد کي تو تقاضا کرے کوئي
نظارے کو يہ جنبش مژگاں بھي بار ہے
نرگس کي آنکھ سے تجھے ديکھا کرے کوئي

کھل جائيں ، کيا مزے ہيں تمنائے شوق ميں
دو چار دن جو ميري تمنا کرے کوئي
----------------------------------------------
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
نہ بادہ ہے نہ صراحی نہ دور پیمانہ
فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزم جانانہ
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہ
کلی کو دیکھ کہ ہے تشنۂ نسیم سحر
اسی میں ہے مرے دل کا تمام افسانہ
کوئی بتائے مجھے یہ غیاب ہے کہ حضور
سب آشنا ہیں یہاں ایک میں ہوں بیگانہ
فرنگ میں کوئی دن اور بھی ٹھہر جاؤں
مرے جنوں کو سنبھالے اگر یہ ویرانہ
مقام عقل سے آساں گزر گیا اقبالؔ
مقام شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ
-----------------------------------------------
یا رب یہ جہان گزراں خوب ہے لیکن
کیوں خوار ہیں مردان صفا کیش و ہنر مند
گو اس کی خدائی میں مہاجن کا بھی ہے ہاتھ
دنیا تو سمجھتی ہے فرنگی کو خداوند
تو برگ گیا ہے نہ وہی اہل خرد را
او کشت گل و لالہ بہ بخشد بہ خرے چند
حاضر ہیں کلیسا میں کباب و مئے گلگوں
مسجد میں دھرا کیا ہے بجز موعظہ و پند
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پازند
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
مدت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر
کر دے اسے اب چاند کے غاروں میں نظر بند
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
درویش خدا مست نہ شرقی ہے، نہ غربی
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے آبلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مشکل ہے اک بندۂ حق بین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دماوند
ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش
میں بندۂ مومن ہوں نہیں دانۂ اسپند
پر سوز نظر باز و نکوبین و کم آرزو
آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند
ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم
کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکرخند
چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبالؔ
کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا منہ بند
--------------------------------------------

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں آ بسیں گے برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پر استوار ہوگا نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خار ہوگا دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا ہے جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پاگل ہیں تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شہہ نشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی کہیں سر راہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا

----------------------------------------

ایک آرزو


دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
آزاد فکر سے ہوں عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو
ہو ہاتھ کا سرہانا سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو
مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
ہو دل فریب ایسا کوہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو
آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو
بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو
پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذن
میں اس کا ہم نوا ہوں وہ میری ہم نوا ہو
کانوں پہ ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں
روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو نالہ مری دعا ہو
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر دردمند دل کو رونا مرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
----------------------------------------------------

فرمان خدا


اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو

گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
حق را بسجودے صنماں را بطوافے
بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو
میں ناخوش و بے زار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
تہذیب نوی کار گہہ شیشہ گراں ہے
آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو
-----------------------------------------------

ترانہ ہندی


سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا ہم سایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں
گلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا
اے آب رود گنگا وہ دن ہے یاد تجھ کو
اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا
اقبالؔ کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا
-----------------------------------------------








کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں