ندیم بھابھہ غزلیں - بیسٹ اردو پوئٹری پی

پیر، 2 ستمبر، 2019

ندیم بھابھہ غزلیں


اس کی آنکھوں کے دریچوں میں رہا کرتے تھے
سچے خوابوں کی طرح ہم بھی ہوا کرتے تھے
اب یہ تجھ پر ہے محبت میں ہمیں جیسے گزار
ورنہ ہم لوگ تو مرضی سے جیا کرتے تھے
اے محبت کو بڑا کام سمجھنے والو
یہ بڑا کام کبھی ہم بھی کیا کرتے تھے
ندیم بھابھہ
____________________________
عرشی ، فرشی مست ہیں ، آئے جناب حُسین
آدم تو تعبیر تھے ، اصل میں خواب حُسین

آدھی خلقت کھوج میں ، آدھی سوگ بھری
عشق سوال حُسین تھے ، عشق جواب حُسین

پوچھو جو ہے پوچھنا ، عاشق بول رہے
سارے علوم ہیں عشق کے ، اور کتاب حُسین

اک براق سوار ہے ، اک مسجود نشین
سائیں خوش خوش بول اٹھے ، واہ جناب حُسین

حق پر سر کٹوائیے ، حق ہی ہے معراج
رونے والو ! غور ہو ، کریں خطاب حُسین

جوڑی ہے حسنین کی ، یعنی جمال ، جلال
ایک عمل مقبول ہے ، ایک ثواب حُسین
ندیم بھابھہ
____________________________

دل سے اک یاد بھلا دی گئی ہے
کسی غفلت کی سزا دی گئی ہے
میں نے منزل کی دعا مانگی تھی
میری رفتار بڑھا دی گئی ہے
عیب دیوار کے ہوں گے ظاہر
میری تصویر ہٹا دی گئی ہے
میں نے اک دل پہ حکومت کیا کی
مجھے تلوار تھما دی گئی ہے
اب محبت کا سبب ہے وحشت
ورنہ حسرت تو مٹا دی گئی ہے
اب یہاں سے نہیں جا سکتا کوئی
اب یہاں شمع جلا دی گئی ہے
اس لئے جم کے یہاں بیٹھا ہوں
مجھ کو میری ہی جگہ دی گئی ہے

محمد ندیم بھابھہ
---------------------------------------------------------------------------------
سہولت ہو اذیت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
کہ اب کوئی بھی صورت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
ہمارے رابطے ہی اس قدر ہیں، تم ہو اور بس تم
تمہیں سب سے محبت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
اور اب گھر بار جب ہم چھوڑ کر آ ہی چکے ہیں تو
تمہیں جتنی بھی نفرت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
ہمارے پاؤں میں کیلیں اور آنکھوں سے لہو ٹپکے
ہماری جو بھی حالت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
تمہیں ہر صبح اور ہر شام ہے بس دیکھتے رہنا
تم اتنے خوب صورت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے

محمد ندیم بھابھہ
---------------------------------------------------------------------------------

کسی سبب سے ہی بے سبب تک پہنچ رہی ہے

مدد پہ زندہ ہوں اور جب تک پہنچ رہی ہے



ہم اپنی گردن جھکا کے کاغذ پہ لکھتے لکھتے
سمجھ رہے ہیں کہ بات رب تک پہنچ رہی ہے

ہوا کے ہاتھوں پیام دینے سے یہ ہوا ہے
تمام لوگوں کی رائے سب تک پہنچ رہی ہے

تم اپنی آنکھیں نہ ہار دینا اے صبر والو
کہ اک سفیدی سیاہ شب تک پہنچ رہی ہے

نئی طرح کی مزاحمتوں کا جنم ہوا ہے
غزال کی کوک بھی غضب تک پہنچ رہی ہے
-----------------------------------------------------


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں