بیسٹ اردو پوئٹری پی

جمعہ، 20 ستمبر، 2019

چیکو کے ابا- ناول

ستمبر 20, 2019 0
چیکو کے ابا- ناول


بیگم صاحبہ کا موڈ سخت خراب تھا اور میاں جی کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے... اگرچہ وجوہات سے قطعی طور پر لاعلم تھے،،،، لیکن یقین رکھتے تھے کہ آنے والے طوفان کی زد میں ان کی ناتواں جان ہی آئے گی... اپنے تئیں بیگم کو منانے کی بھرپور کوشش میں ناکامی کے بعد میاں جی نے مارکیٹ کا رخ کیا اور بیگم کیلئے ایک سوٹ، پرفیوم اور لپ سٹک خرید لائے... بچوں کیلئے چاکلیٹس اور بسکٹس لئے اور ساتھ ہی بیگم کی پسند کے دہی بڑے پیک کروا لئے....

گھر پہنچے تو جیسا ماحول چھوڑ گئے تھے ویسا ہی پایا... تبدیلی نہ مزاج میں آئی تھی اور نہ ماحول میں...

ڈرتے ڈرتے بیگم کے پاس بیٹھے اور تحائف پیش کئے.. بچے چونکہ غیر سیاسی ہوتے ہیں...  لہذا وہ چاکلیٹس پر ہی خوش ہو گئے... 

بیگم صاحبہ نے سوٹ دیکھ کر منہ بنایا اور بولیں "آپ کو پتا بھی ہے کہ آپکو شاپنگ کی شناس نہیں ہے... پھر بھی باز نہیں آتے... اب تو ایسے سوٹ سیل میں بھی کوئی نہیں لیتا".... 

میاں جی کے اوسان خطا ہو گئے، بولے "بیگم، تم میری محبت دیکھو، سوٹ تو تبدیل بھی ہو سکتا ہے نا، اور یہ دیکھو پرفیوم اور لپ سٹک بھی لایا ہوں تمہارے لئے"... 

بیگم صاحبہ کچھ دیر کیلئے چیزوں میں کھو گئیں... اور بولیں "چلیں آپ لے آئیں ہیں تو رکھ لیتی ہوں، ورنہ ایسی چیزیں تو اب کام والی ماسیاں بھی نہیں لیتیں"....

میاں جی کو تھوڑی تسلی ہوئی کہ برف پگھلنا شروع ہو گئی ہے... بولے "بیگم یہ دیکھو دہی بڑے بھی لایا ہوں"... بیگم کے چہرے پر فوراً خوشی کے آثار دیکھ کر میاں جی جھوم اٹھے... 

بیگم دہی بڑوں کا شاپر کچن میں لے کر چلی گئیں، تو میاں جی نے سکھ کا سانس لیا... دوسرا سانس لینے سے پہلے بیگم کی آواز آئی... "چیکو کے ابا کب عقل آئے گی آپ کو" ... 

میاں جی دوڑے دوڑے کچن میں پہنچے اور خوشامدانہ لہجے میں گویا ہوئے "بیگم اب کیا کر دیا ہے معصوم بندے نے"... 

بیگم نے گھورتے ہوئے کہا  "آپکو پتا بھی ہے کہ میں میٹھی چٹنی علیحدہ سے کھاتی ہوں، آپ مکس کرا کے لے آئے ہیں... آپ سے کوئی کام سیدھا بھی ہوتا ہے"؟.... 

میاں جی نے کھسیانے انداز میں کہا  "بیگم اس خبیث کو کہا بھی تھا کہ میٹھی چٹنی الگ سے پیک کر دے، بے عزتی کرا دی میری، منحوس نے"...

دہی بڑے کھاتے ہوئے میاں جی نے ہمت کر کے پوچھا "بیگم ویسے آپ ناراض کس بات پر تھیں"... 
بیگم فوراً اداس ہو گئیں اور بولیں "چیکو کے ابا، آپ کو کیا فرق پڑتا ہے، آپ کی زندگی تو سکون میں ہے نا.. میں مروں یا جیئوں، آپ کو اس سے کیا"...

میاں جی گھبرا کر بولے  "ارے میری شہزادی کچھ بتاو بھی تو سہی، آخر کیا وجہ ہے تمہاری اداسی کی"... بیگم صاحبہ نے کہا "آپ دفتر سے آ کر اپنی امی کے پاس بیٹھ جاتے ہو، ٹی وی دیکھتے رہتے ہو یا موبائل میں گھسے رہتے ہو، ہمارے لئے تو آپ کے پاس ٹائم ہی نہیں ہوتا"...

میاں جی کو ایک طویل جنگ کے آثار دکھائی دینے لگے.... معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹانے کی غرض سے بولے "بیگم، تمہارا موڈ تو اکثر خراب ہوتا ہے، میں اس لئے سائیڈ پر ہو جاتا ہو، پھر تم بچوں کو پڑھا رہی ہوتی ہو تو تم لوگوں کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھتا.... ویسے بھی تم 9 بجے سو جاتی ہو، میں تو گھر پر ہی ہوتا ہوں"... 

بیگم صاحبہ کا حوصلہ جواب دینے لگا، بولی‌ "خاک گھر پر ہوتے ہیں آپ.. پتا نہیں کون سی کلموہیوں سے باتیں کرتے رہتے ہیں موبائل میں... میری تو زندگی برباد ہو گئی،، آپکے بچوں کی ذمہ داری بھی مجھ پر، کچن بھی میں ہی دیکھوں، کپڑے بھی میں دھووں.. اور آپ "راجہ اندر" بن کر موبائل میں گھسے رہیں... پتا نہیں کس عذاب میں پھنس گئی ہوں میں".... 
بیگم کا نان سٹاپ ایکشن سے بھرپور ڈائیلاگ سن کر میاں جی کے چودہ طبق روشن ہو گئے، گھبرا کر بولے "ٹھیک ہے بیگم، آج سے تم کو مجھ میں تبدیلی نظر آئے گی"...

بیگم بولیں "چیکو کے ابا رہنے دیں، دس سال سے سن رہی ہوں آپ کے ڈائیلاگ، رتی بھر نہیں بدلے آپ... 
جتنے غیر ذمہ دار پہلے دن تھے آج بھی ویسے ہی ہیں". 

میاں جی نے بات بڑھانا مناسب نہ سمجھا اور بیگم کا ہاتھ تھام کر کہا "تم دیکھنا، تبدیلی نظر آئے گی"....

شام کو میاں جی روم میں آئے تو بیگم بچوں کو پڑھا رہی تھیں، میاں جی نے چہکتے ہوئے کہا "واہ جی واہ پڑھائی ہو رہی ہے"... بیگم صاحبہ بیزاری سے بولیں  "چیکو کے ابا، کل بچوں کا ٹیسٹ ہے، آپ ہمیں ڈسٹرب نہ کریں پلیز"... میاں جی کمرے سے نکل کر امی کے پاس جا بیٹھے... 

امی کے پاؤں دبانے لگے اور ساتھ ٹی وی دیکھتے رہے... کافی دیر بعد چیکو نے اپنے کمرے سے جھانک کر آواز دی "بابا، آ جائیں، مما بلا رہی ہیں".. 

میاں جی فوراً کمرے میں پہنچے... بیگم نے چیکو کو حکم دیا کہ لائٹ بند کر کے سو جاو سب.. صبح ٹیسٹ ہے تم لوگوں کا...
میاں جی بولے... "بیگم، مجھے جو بلایا تھا، اب سونے لگے ہو سب"... 

بیگم بولیں "آپ بھی چپ کر کے سو جائیں.. چھوڑ دیں جان اس موبائل کی"... چیکو نے لائیٹ بند کر دی،،، بیگم صاحبہ نے دونوں بچوں کو دائیں بائیں سلا لیا.. جبکہ میاں جی نیچے بچھے میٹرس پر سو گئے... 

نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، رات بارہ بجے سونے والے کو نو بجے خاک نیند آنی تھی... 
ہلکی سی آواز میں منمنائے "بیگم اتنی جلدی مجھے کہاں نیند آئے گی بھلا"... بچے بھی بولے "ہاں بابا، باتیں کرتے ہیں"....

بیگم نے غصے سے کہا "اب کسی کی آواز آئی تو اسکی خیر نہیں"... دونوں بچے فوراً رضائیوں میں گھس گئے... میاں جی نے ہمت کر کے پوچھا "بیگم مجھے کہتی ہو وقت نہیں دیتا.... اب کمرے میں آ گیا ہوں تو کہتی ہو چپ کر کے سو جاو، یہ کیا بات ہوئی بھلا"... 

بیگم نے درشتت لہجے میں کہا "چیکو کے ابا، میرا بحث کرنے کا موڈ نہیں ہے.. چپ کر کے سو جائیں، اب موبائل نہ دیکھوں آپکے ہاتھ میں".... 

میاں جی نے جوابی چوٹ کی "یار یہ آخر بیویاں کون سے ادارے سے ٹریننگ حاصل کرتی ہیں، خدا کی پناہ.. سیدھی سادھی لڑکی شادی ہوتے ہی افلاطون کی خالہ بن جاتی ہے".

بیگم بولیں"چیکو کے ابا، میرا منہ نہ کھلواؤ اب، اچھی بھلی تھی جب اپنے ماں باپ کے گھر سے رخصت ہو کر آئی تھی.. ساری ٹریننگ ادھر سے ہی ملی ہے"... 

اس سے پہلے کہ میاں جی جوابی فائر کرتے، 
چیکو بول پڑا "مما، بابا... آپ لوگوں نے لڑائی کرنی ہے تو باہر جا کر لڑیں... ہمیں سونے دیں صبح ٹیسٹ بھی ہے"... 

چیکو کی بات ختم ہوتے ہی چٹاخ کی آواز سے چیکو کو تھپڑ پڑا اور کمرے میں سناٹا چھا گیا... میاں جی نے چپکے سے موبائل آف کر کے سائیڈ پر رکھا اور کمبل میں دبک گئے.... 

تھانیدار کا بنگلہ

ستمبر 20, 2019 0
تھانیدار کا بنگلہ


 ۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے معاشرے کی ایک عبرت انگیز سچی داستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_________________________

وہ چھوٹے سے محلے کی ایک تنگ سی گلی تھی جس کی نکڑ پر پچھلے دو سالوں سے یہ بنگلہ تعمیر ہو رہا تھا سنا تھا کہ کسی تھانیدار کی ملکیت ہے جو وہ اپنی بیٹی کو جہیز میں دینے کے لیے بنوا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ دو کمرے کچی چار دیواری اور پکی لکڑ کے دروازے والے گھروں کے لیے باقاعدہ نقشے اور ماہر ٹھیکیدار کے زیر نگرانی تعمیر ہونے والا یہ بنگلہ دنیا کا کوئی ساتواں عجوبہ تھا جو شاید انھوں نے اپنی زندگی میں پہلے نہیں دیکھا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔دو کنال رقبے پر آٹھ کمرے اٹیچ باتھ بڑا سا ہال گھومتی اوپر کی جانب جاتی ہوئی سیڑھیاں اور سب سے پرکشش حصہ بنگلے کے سامنے بنی بالکونی جس میں کھڑے ہو کر آ دھے سے زیادہ محلے کے گھر نظر آتے تھے۔۔۔۔۔۔ وسیع وعریض  لان جس میں لگے رنگ برنگے پھولوں کے پودے شاید محلے کے لوگوں نے خوابوں میں ہی ایسے پھول دیکھے تھے انٹئریر ڈیکوریشن اور سنگ مرمر کا بے تحاشا استعمال بنگلے کے حسن کو چار چاند لگا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ ان دنوں بنگلہ تعمیر کے آخری مراحل سے گزر رہا تھا پورے بنگلے میں سفید پینٹ کروایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے یہ بنگلہ رات کے اندھیرے میں چاند کی طرح چمکتا تھا ۔۔۔۔۔

 بنگلے کے چار گیٹ تھے گلی کی طرف کھلنے والے گیٹ کے سامنے بنی سیڑھیوں پر قیمتی پتھروں سے انتہائی نفیس کام کیا گیا تھا جس کے درمیان میں ایک پھسلن سیڑھی بھی بنی ہوئی تھی جس پر محلے کے بچے سارا دن کسی بادشاہ کی سیر گاہ کی طرح گھومتے رہتے اور اس پھسلن سیڑھی سے پھسل پھسل کر لطف اندوز ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔چند دن بعد گھر والوں کے سامان کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا جیسے ہی کوئی سامان سے لدا ٹرک گیٹ کے سامنے آ کر رکتا پورے محلے کی عورتیں دیکھنے کے لیے جمع ہو جاتیں اور دل ہی دل میں سو سو بار اس بنگلے میں آنے والوں کی قسمت پر واری جاتیں ایسا عمدہ فرنیچر شاید کسی بادشاہ کی بیٹی کے محل میں ہی ہو سکتا تھا اور چند دن بعد وہ خوش قسمت بنگلے کا مالک خاندان بھی یہاں منتقل ہو گیا اتنے امیر کبیر خاندان سے غریبوں کے اس محلے میں ہر کوئی راہ و رسم بڑھانے کے لیے بے چین تھا کوئی کسی بہانے کوئی کسی بہانے بنگلے کے مالک حاجی صاحب کی قدم بوسی کے لیے چلا جاتا اور حاجی صاحب کی بیگم حاجن جی کے تو مزاج ہی نہ ملتے تھے ہر وقت دماغ ساتویں آسمان پر رہتا لوگوں سے ہی سنا تھا کہ حاجن کا بھائی جو پولیس میں تھانیدار ہے اس نے اپنی بہن کو اپنی اکلوتی بیٹی کے رشتے کے علاوہ یہ بنگلہ بھی جہیز میں بنوا کر دیا ہے حاجی صاحب کا بیٹا امتیاز ایک شریف اور سیدھا سادھا سا کسی سرکاری محکمے میں کلرک لگا ہوا تھا وہ تو پوری زندگی بھی کمائی کر کے ایسا بنگلہ نہ بنوا سکتا تھا حاجی کے دو ہی بچے تھے ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا اور حاجن کے تھانیدار بھائی کی بھی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے یوں ان دونوں بہن بھائی نے آپس میں ہی وٹے سٹے سے رشتے داری کر لی تھی حاجن محلے کی ہر عورت کے سامنے اپنے تھانیدار بھائی کی بے انت دولت کے قصیدے پڑھتی نہ تھکتی دس بارہ بڑے بڑے شہروں میں کوٹھیاں زمین اور نئے نئے ماڈل کی گاڑیاں ہر آنے والی کو اپنے بھائی کی محنت کی داستان ضرور سناتی کہ کیسے اس کے بھائی نے دن رات محنت کر کے یہ پیسہ اکھٹا کیا اور جائیداد بنائی جس کی اب وہ بھی رشتے داری کے ذریعے حصے دار بننے والی تھی اس بنگلے کے بغل والے اڑھائی مرلے کے مکان میں اس محلے کی مسجد کے امام صاحب اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ رہتے تھے بڑی بیٹی مریم  کوئی اٹھارہ سال کی اور چھوٹی میمونہ سات آٹھ سال کی تھی پورے محلے میں یہ فیملی اپنی دین داری اور نیک عادات کی وجہ سے بہت عزت کی نظر سے دیکھی جاتی تھی محلے کی مسجد ابھی زیر تعمیر تھی جس کی وجہ سے امام صاحب اکثرو بیشتر قریب کے علاقوں میں مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ مانگنے نکل جاتے اور اکثر شام ڈھلے ہی گھر لوٹتے محلے کی بچیاں امام صاحب کی حافظ قرآن بیوی اور بیٹی مریم سے قرآن پاک کی مفت تعلیم حاصل کرتی حاجن کی اکلوتی بیٹی شمسہ جلد ہی اپنی ہم عمر مریم کی دوست بن گئی اور دونوں ایک دوسرے کے گھر آنے جانے لگ گئیں۔

 چند ہی دنوں میں امتیاز کی اپنی ماموں زاد سعدیہ سے شادی کی تاریخ رکھی جانے والی تھی کہ سعدیہ کی امی جان کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو گئی جس کی وجہ سے ابھی دونوں گھرانوں میں شادی کے بارے میں چپ سادھ لی تھی امام صاحب کی بیٹی مریم کے لیے یہ گھرانہ ایک خواب جیسا تھا ایسا رہن سہن اور ٹھاٹ باٹ تو قصے کہانیوں میں ہی ملتا تھا ایک دن باتوں باتوں میں مریم نے اپنے ابو جان سے شمسہ کے گھر کی امارت کا اپنے گھر کی غربت سے مقابلہ کر نے لگ گئی امام صاحب کی جہاندیدہ نظریں بہت پہلے جان چکی تھی کہ یہ ساری دولت محنت اور قسمت کی نہیں بلکہ رشوت اور حرام کی کمائی کا نتیجہ ہے آج اپنی بیٹی کے منہ سے ان کی تعریف سن کر امام صاحب نے ضروری سمجھا کہ بیٹی کو حلال اور حرام کی دولت میں فرق سمجھا دیں۔ مریم کی سمجھ میں یہ سب باتیں کتابی تھیں اور حقیقت یہ تھی کہ پیسے میں بڑی طاقت تھی ۔شمسہ مریم کو اکثر اپنے منگیتر عابد کے بارے میں بتاتی رہتی اور اس کے بھیجے ہوئے قیمتی گفٹ بھی اس کو دکھاتی جن کو دیکھ کر کچی عمر کی آنکھوں میں بھی ایسے ہی کسی امیر شخص کی تصویر بننے لگی جو اس کی محبت میں اسے ایسے ہی قیمتی تحفے بھیجتا ہو شام کو جب مریم شمسہ کے گھر گئی تو حاجن کا تھانیدار بھائی اپنی پوری فیملی سمیت آیا ہوا تھا مریم نے بے دھیانی میں نقاب بھی چہرے سے اتار رکھا تھا جب اوپر جانے والی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے مریم کی ملاقات شمسہ کے تھانیدار ماموں سے سیڑھیوں میں ہو گئی ساٹھ سال کا چھ فٹ سے زائد قد سیاہ رنگ بھاری بھرکم جسم بڑی بڑی مونچھیں چہرے پر جیسے پھٹکار برس رہی ہو شمسہ کا ماموں کسی دہشت گرد غنڈے سے کم نہ تھا مریم کا دل تو اس پر نظر پڑھتے ہی لرز گیا افف اس نے تو کبھی اپنی پوری زندگی میں ایسا ڈراؤنا چہرہ نہیں دیکھا تھا جلدی سے چادر سے چہرے کو چھپا کر پیچھے ہٹ گئی مگر تھانیدار اسے بڑی عجیب نظروں سے گھورتے ہوئے نیچے چلا گیا شمسہ نے مریم کو ماموں کی باقی فیملی سے بھی ملوایا مریم کو اب سمجھ میں آیا تھا کہ اتنی دولت کے باوجود شمسہ کے ماموں نے ان کے گھر اپنے بچوں کا رشتہ کیوں کیا تھا امتیاز کی مینگتر سعدیہ عجیب بھدی کالی موٹی دانت باہر کو نکلے ہوئے ڈائن نما عورت لگ رہی تھی ایسی عورت جیسی مریم کی امی جب کبھی مریم بچپن میں وہ ضد کرتی اور بات نہ مانتی تو امی ایسی شکل کی ڈائن کی تصویر کشی کر کے اسے ڈراتی تھی اور اس کے دونوں ماموں زاد ہو بہو اپنے باپ کی بدصورتی کی جیتی جاگتی تصویر تھے گھر آ کر مریم نے لاکھ بار اپنے رب کا شکر ادا کیا کہیں اس کے چاہنے کے باوجود اس کے رب نے اسے ایسے کسی شخص کے پلے بندھنے سے بچا لیا چند دن بعد شمسہ کا ماموں رات کے اندھیرے میں مریم کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا مریم کے ابو نے اسے بڑے ادب سے اپنے کچی بیٹھک میں بٹھایا پر تھوڑی دیر کے بعد اس کے ابو اور تھانیدار کے درمیان تلخ کلامی کی آوازیں آ نے لگ گئیں اور پھر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی مریم اور اس کی امی نے بڑی مشکل سے درمیان میں آ کر اس چھ فٹ کے سانڈ کی گرفت سے امام صاحب کو آ زاد کروایا اس سے پہلے کہ باہر لوگوں کے کانوں تک پہنچتی تھانیدار دھمکیاں دیتا ہوا اپنی نئی پجارو میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا شام تک مریم کے کا نوں میں یہ بات پہنچ چکی تھی کہ تھانیدار مریم سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اس کے ابو کے پاس اس کا رشتہ لے کر آیا تھا جس کا سن کر امام صاحب کا خون کھول اٹھا اور اس نے صاف انکار کر دیا ۔تھانیدار کی جتنی گندی شکل تھی اس سے کہیں گندی اور بدصورت اس کی نیت تھی مریم کو وہ ہر صورت حاصل کرنا چاہتا تھا کسی بھی حد تک جا سکتا تھا ۔یہ بات حاجن کے کا نوں تک بھی جا چکی تھی اس سے پہلے کہ وہ امام صاحب کے گھر والوں کا جینا حرام کرتا حاجن کی منت سماجت اور کچھ شرم دلانے سے تھانیدار کا غصہ کچھ سرد پڑھ گیا بہر حال ابھی اس کی اپنی بیٹی کی شادی زیادہ اہم تھی جس کی اس نے پورے جاہ و جلال سے تیاریاں شروع کردیں اور چند دنوں بعد سعدیہ دلہن بن کر امتیاز کے گھر آ گئی۔

شمسہ کی شادی ابھی چند سالوں کے بعد ہونا قرار پائی امام صاحب نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مریم کے رشتے کی تلاش شروع کر دی لیکن جو بھی رشتہ آتا چند دن بعد وہ جواب دے دیتے یا تھانیدار کی دھمکیوں سے ڈر کر خود ہی بھاگ جاتے جان تو ہر کسی کو پیاری تھی اب مریم کوئی ایسی دنیا کی انوکھی لڑکی بھی نہ تھی جس پر کوئی اپنے بیٹے کی جان قربان کر دیتا امام صاحب کی اس صورت حال کے پیش نظر رات کی نیندیں حرام ہو چکیں تھیں اس کی تو کل کائنات یہی دو بیٹیاں تھیں جن کو دیکھ دیکھ کر وہ جیتا تھا دوسری طرف مریم بھی ان حالات سے بہت دلبرداشتہ ہو چکی تھی اور آخر کار مریم کے کسی شریف گھرانے میں رشتے کی ہر امید دم توڑنے لگی انھیں دنوں امتیاز اور سعدیہ کے گھر بیٹی نے جنم لیا امتیاز نے اس کا نام مریم رکھا حالانکہ سعدیہ کو یہ نام بالکل پسند نہ تھا لیکن امتیاز کو مریم کے سب حالات کی خبر تھی اور اس سے دلی ہمدردی بھی لیکن وہ اس کے لیے کچھ کر نہ پارہا تھا شاید اسی ہمدردی کی وجہ سے ہی اس نے اپنی بیٹی کا نام مریم رکھ لیا تھا وہ جمعے کا دن تھا جب امام صاحب مسجد سے جمعہ کی نماز پڑھا کر واپس آ رہے تھے جب راستے میں انھیں پولیس کے چند آ دمیوں نے گرفتار کر لیا مریم اور اس کی ماں نے ہر تھانے میں پتہ کروا لیا لیکن امام صاحب کا کہیں نام ونشان نہیں تھا ساری رات پریشانی میں کٹ گئی آخر جاتی بھی وہ کہاں کس کے پاس فریاد لے کر غریبوں کی اس زمانے میں سنتا ہی کون ہے مریم کی امی کا رو رو کے برا حال ہو رہا تھا دن کے دس بجے کا وقت تھا جب پولیس کی گاڑی مریم کے مکان کے آ گے رکی اور پولیس دونوں بیٹیوں اور ان کی ماں کو گھسیٹتے ہوئے  بغیر کسی جرم  کے گاڑی بٹھا کر لے گئی رات وہ تینوں ماں بیٹیاں شدید سردی میں تھانے کے ننگے فرش پر بیٹھی ہوئی تھی جب ایک شخص نے دروازہ کھولا اور مریم کو بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانے لگا تینوں ماں بیٹیوں نے چیخ وپکار شروع کر دی جس کی وجہ سے حفاظت پر معمور اہلکاروں کو اپنا ڈنڈا استعمال کرنا پڑا مریم کی امی اور چھوٹی بہن مار کھا کھا کر لہو لہان ہو کر زمین پر بے ہوش ہو کر گر پڑی اور جب ان کی آنکھ کھلی تو مریم ان کے ساتھ نہیں تھی ۔ایک پولیس اہلکار نے مریم کو کھنیچ کر باہر کھڑی گاڑی میں موجود لوگوں کے حوالے کیا اور گاڑی نامعلوم منزل کی طرف چل پڑی مریم کو دو بندوں نے اپنے قابو میں کیا ہوا تھا تقریباً دو گھنٹے کی مسافت کے بعد گاڑی ایک بہت بڑے فارم کے گیٹ پر رک گئی تھوڑی دیر بعد گیٹ کھلا اور مریم کو ایک کمرے میں پھینک کر باہر سے دروزہ بند کر دیا گیا مریم کی چیخیں اب ہچکیوں میں بدل کر گلے میں دم توڑنے لگی تھیں آنے والا وقت ایک اژدہے کی طرح منہ کھولے اسے ڈرا رہا تھا دس بارہ گھنٹے وہ صدمے سے نڈھال فرش پر پڑی رہی پھر بند دروازہ کھلا اور دو عورتیں اندر داخل ہوئیں جنھوں نے مریم کو بالوں سے پکڑ کر زبردستی گھیسٹتے ہوئے غسل خانے میں لے گئیں اس کے زبردستی کپڑے اتار کر اسے غسل دینے لگیں پھر اسے وہاں سے اٹھا کر ایک بیڈ پہ لا کر پٹخ دیا اور نئے کپڑے پہنا کر بناؤ سنگھار کرنے لگیں مریم کو ان کی حرکتیں اس وقت سمجھ آئیں جب وہ بیس تیس مردوں کے سامنے لا کر کھڑی کر دی گئی ہاں مال حاضر ہے لگاؤ بولی  بالکل نواں نکور فریش پیس ہے یہ آواز تھانیدار کی تھی اور مریم کی کسی جانور کی طرح بولی لگنے لگی دو لاکھ تین لاکھ پانچ لاکھ اور پھر سات بندوں نے مل کر پچاس لاکھ میں اسے خرید لیا باقی اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے ۔

تھانیدار نے پچاس لاکھ اپنی جیب میں ٹھونسے اور مریم کو ان سات انسان نما درندوں کے سپرد کر کے باہر چلا گیا کمرے کا دروزہ بند ہو گیا اور سات بھیڑیے ایک کم سن لڑکی کی درد اور اذیت سے بھری چیخوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ساری رات اس کے نازک بدن سے کھال ادھیڑ کر اپنی حیوانی ہوس پوری کرتے رہے ۔صبح کو محافظوں نے مریم کا نیم مردہ برہنہ جسم فرش سے اٹھایا اور اسے کچرے کے ڈھیر پر پھینکنے کے لیے چل پڑے ان میں سے ایک محافظ کو تھوڑی سی غیرت محسوس ہوئی اور اس نے ادھر ادھر کمرے کے کونوں کھدروں  سے مریم کا تار تار لباس اکھٹا کر کے اس برہنہ جسم کو پہنا دیا شام کے اخبار میں مریم کی چھوٹی سی تصویر ایک کونے میں نا معلوم لاش کے نام سے چھپی جسے نا معلوم افراد نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔اور اب اسے لاوارث سمجھ کر دفن کر دیا گیا تھا
اسی اخبار کے فرنٹ صفحے پر تھانیدار کے بہادری اور بے مثال جدو جہد  کے قصے بڑی بڑی شہ سرخیوں میں چھپے تھے کیونکہ اسے چھپوانے کے لیے اخبار کے مالک کو ایک خطیر رقم مل چکی تھی مریم چونکہ ایک غریب اور غیر اہم طبقے سے تعلق رکھتی تھی جس طبقے کی بچیاں عموماً امیر زادوں کے عشق میں مبتلا ہو کر اپنی غربت سے پیچھا چھڑانے کے لیے گھروں سے بھاگ جاتی ہیں اور اکثر ان امیر زادوں کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہیں۔اکثر ایسی لڑکیوں کی لاشیں کسی کچرے کے ڈھیر سے نہر کے پل کے نیچے سے یا گندے نالوں سے برآمد ہوتی ہی ۔۔۔۔۔۔ اخبار کے مالک کے نزدیک یہ تو عام سی ڈیلی روٹین کی  کہانی تھی جس کا عادی اب ہر فرد ہو چکا تھا اور مزید وہ اس لاش کے بارے میں جان کر یا لکھ کر ان کو کوئی خاص فائدہ حاصل نہ ہونے والا تھا جبکہ تھانیدار کا قصہ تو انسانی جدو جہد کی ایک زندہ  مثال تھا کہ کیسے ایک عام سے شخص نے اپنی کوشش اور ہمت سے اپنی زندگی صفر سے شروع کر کے کامیابی کی بلندیوں کو چھو لیا۔اور پھر چھپوانے والے نے پوری قیمت سے زائد ہی ادائیگی بھی تو کی تھی ۔امام صاحب جیل سے بے گناہ ہونے کی وجہ سے چھوٹ گئے ۔

مریم کی امی اور بہن بھی محلے والوں کی ضمانت پر رہا ہو گئی لیکن مریم کا کچھ پتہ نہ چل سکا ۔بشیر دکاندار نے گلی کے کسی بچے کو ایک دن  اس اخبار میں سودا لپیٹ کر دیا تو اس بچے کے گھر والوں کو مریم کی تصویر سے اس قصے کا علم ہوا بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی محلے والے طرح طرح کی باتیں کرنے لگ پڑے امام صاحب نے اس بچے کے گھر سے اخبار کا وہ ٹکڑا منگوایا اور ساری رات ہاتھوں میں لے کر مصلے پر بیٹھ کر روتے رہے۔لیکن کوئی جھوٹے منہ انھیں دلاسہ دینے بھی ان کی چوکھٹ پر نہ آیا۔صبح گلی میں جشن کا سماں تھا امتیاز کے ہاں بیٹے نے جنم لیا تھا اور ساتھ میں شمسہ کی شادی کی تاریخ بھی مقرر کر دی گئی تھی سارے محلے والوں کو اس خوشی میں مٹھائی کھلائی جا رہی تھی شام کو پوری فیملی نے ان لمحات کو یاد گار بنانے کے لیے سوات ٹرپ پر جانے کا پلان بنا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔ تھا نیدار اس کی بیوی دونوں بیٹے داماد بیٹی دونوں نواسا اور نواسی اور شمسہ  سمیت سب بالکل نئی لینڈ کروزر میں سوات کی جانب ہنستے کھیلتے روانہ ہو گئے وہ پیر کا دن تھا شام کے پانچ چھ بجے تھے جب محلے میں تھانیدار کی اس کوٹھی کے سامنے رش لگ گیا خبر تھی کہ تھانیدار کی کار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور  اس ایکسیڈنٹ میں پوارا خاندان جاں بحق ہو گیا ہے اب یہ کسی کو کنفرم نہیں تھا کہ خبر سچی تھی یا جھوٹی صبح کو پولیس کی گاڑی میں تھانیدار کی پوری فیملی کی نو لاشیں اس بنگلے کے سامنے ایمبولینس سے اتاری جا رہی تھیں محلے میں یہ لاشیں دیکھ کر کہرام مچ گیا ہر آ نکھ اشکبار تھی آہوں اور سسکیوں میں انھیں سپرد خاک کر دیا گیا بڑے بڑے اخبارات میں حکومت کی نااہلی اور بد انتظامی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے پورا خاندان حادثے کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گیا دوسرے دن مرحومین کی روحوں کے ایصال ثواب کیلئے قل کا ختم تھا مگر کونسا ایصال ثواب سب رشتے دار گھر میں جو کچھ موجود تھا اس کی بندر بانٹ میں مصروف تھے آخر کو وہ تھانیدار کی اتنی بڑی جائیداد کے وارث تھے اب وارث تو کوئی زندہ بچا نہ تھا شام تک نوبت رشتے داروں میں ہاتھا پائی تک پہنچ گئی کیونکہ بہت سے لوگ اپنے آ پ کو جائیداد کے اصل وارث قرار دے رہے تھے دو تین ماہ کے بعد تھانیدار کے اس بنگلے سمیت ساری جائیداد اس کے رشتے داروں نے کوڑیوں کے داموں اونے پونے بیچ دی اور جس کے جو ہاتھ لگا وہ مال غنیمت سمجھ کر ا ٹھا کر چلتا بنا اور وہ مال و دولت جو تھانیدار نے پتا نہیں کتنی مریم جیسی معصوموں کو بیچ کر گناہ ظلم اور زیادتی سے اپنی آنے والی  نسلوں کے لیے اکھٹی کی تھی تاکہ وہ عیش وعشرت کی زندگی بسر کر سکیں  آج اس مال و دولت کا کوئی حقدار کوئی  وارث تھانیدار کی نسل میں سے  زندہ نہ بچا تھا۔امام  صاحب نے ایک دن گلی سے گزرتے ہوئے تھانیدار کے بنگلے  کے سامنے  تھوڑی دیر کے لیے رک کر اپنا منہ آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا بے شک اے میرے مولا تو سب سے بڑھ کر بدلہ لینے والا اور انصاف کرنے والا ہے۔اور 
اپنے نحیف قدم مسجد کی طرف بڑھا دیے۔

محبت تم سے پیا- مکمل ناول

ستمبر 20, 2019 0
محبت تم سے پیا- مکمل ناول



Episode 01 
محبت تم سے پیا

جب سے مناہل پیدا ہوئی تھی عامر کا یہ معمول بن گیا تھا کہ وہ دن میں کئی بار آفس سے کال ضرور کرتااور عالیہ سے مناہل کے بارے میں پوچھتا اور کہتا کہ میری بیٹی کیا کر رہی ہے عالیہ اسے اکیلا نہیں چھورا کرو مناہل کا بہت خیال رکھا کرو،دوسری طرف عالیہ بھی بہت پیار سے جواب دیتی آپ سے زیادہ مجھے اس کی فکر ہے میں اپنی جان سے زیادہ اس کا خیال رکھتی ہوں آپ فکر نہ کریں ، کیوں نہ کرو فکر عامر بات کاٹتے ہوئے کہتا مجھے علم ہے کہ تم ماں اور ہوشاید مجھ سے زیادہ خیال بھی رکھتی ہو مگر یہ میری زندگی ہے,عالیہ مسکرا کر جواب دیتی یہ ہماری زندگی ہے ، عامر جب بھی آفس سے گھر آتا تو سیدھا مناہل کے پاس جاتا اور اسے گود میں لے کر گھنٹوں اس سے باتیں کرتا ،عالیہ کہتی کہ آفس تھک کر آئیں ہیں فریش ہوجائیں کپڑے تبدیل کر لیں پھر لے کر بیٹھ جائے گا اپنی زندگی کو ،اس پرعامر کہتا تم باپ بیٹی کے درمیان میں نہ آوہمیں اسی طرح رہنے دو، عامراورعالیہ اکثر ویک اینڈ پر گھر سے باہر جاتے تومناہل ہی ان کی گفتگو کا موضوع ہو تی ، اور دونوں اس کامستقبل کے بارے میں باتیں کرتے۔ 

دن اسی طرح گزرتے رہے، عامر روز صبح آفس جاتے ہوئے عالیہ سے مناہل کا خیال رکھنے کی تاکید کر کے آفس کے لئے روانہ ہوجاتا عامر کے جانے بعد عالیہ گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی اور ساتھ ہی مناہل کا بھی خیال رکھتی ، ویسے تو عالیہ بہت خوش لباس تھی اور ہمیشہ ہی اچھے ڈریس پہنتی لیکن پھر بھی ایک دن اس نے عامر کو سرپرائز دینے کے بارے میں سوچا ،وہ گھر کے کام سے فارغ ہوکر ایک خوبصورت سا ڈریس اور جیولری پہن کر اچھا سا میک اپ تیار ہو گئی اور عامر کا انتظار کرنے لگی ۔دروازے پر دستک کی آوازکے ساتھ ہی عالیہ بہت خوشی سے دروازہ کھولا توعامر نے سرسری سی نظر عالیہ پر ڈالی اور کہا.



Episode 02
محبت تم سے پیا

خیریت کہاں کی تیاری ہے اور اپنے کمرے میں لیٹی ہو مناہل کو کود میں لے کر اسے باتیں کرنے لگا اس پر عالیہ نے کہا میں اتنی وقت لگا کر تیار ہوئی ہوں اور آپ نے نہ میری طرف دیکھا اور نہ ہی تعریف کی اس پر عامر نے کہا اتنا وقت لگا کر تیار ہونے کے لئے کس نے کہا تھا، ویسے اچھی لگ رہی ہو مگر میری بیٹی سے زیادہ نہیں عالیہ اس بات پر مسکراکر کچھ سوچنے لگ گئی، اس کے بعد عالیہ گھر کے کام کے ساتھ عالیہ تو خیال رکھتی مگر اب اپنے آپ توجہ نہیں دیتی،عامر ہر بار کی طرح روزانہ کال کرتا مگر وہ کام کا بہانہ بنا کر بات نہیں کرتی اسے پتا تھا کہ عامر اس سے زیادہ مناہل کے بارے میں بات کرے گا۔ 

دن اسی طرح گزرتے رہے عا لیہ اب آہستہ آہستہ گھر کے کام کاج سے بھی دور ہوتی جارہی تھی ،ایک دن عامر نے عالیہ سے بہت پیار سے پوچھا کہ تمھیں کیا ہو گیا لگتا ہے تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، تو اس نے جواب دیا کہ نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں بس کچھ تھکن ہے ٹھیک ہو جائی گی،عامر اس کے جواب سے مطمئین نہیں ہو اور اور اس نے اپنی والدہ کو کال کر کے گھر آنے کو کہا ،عامر کی والدہ سکینہ بیگم نہایت نفیس خاتون تھی انہوں اکر گھر کا سارا کام سمبھال لیا اپنی بہو کابھی خیال رکھنا شروع کردیا اور عامر سے کہنے لگی تم میری بہو کا بلکل خیال نہیں رکھتے تو اس کا کیا حال ہو گیا ہے اس پر عامر نے کہا کہ میں سارا دن آفس میں ہو تا ہو ں لیکن جہان تک ممکن ہو تا ہے میں خیال رکھتا ہوں اسے بھی چاہئے کہ اپنا خیال رکھے اور مناہل کا بھی،سکینہ بیگم کے آنے پر عالیہ کی طبعیت کچھ بہل گئی اور وہ دوبارہ نارمل زندگی کی طرف آنے لگی ،اسے دیکھ عامر کی والدہ نے کہا اب میری بہو ٹھیک ہو گئی ہے تم اس کا خیال رکھنا ،اور وہ کچھ دن کے بعد اپنے گھر واپس چلی گئی، لیکن ئن کے جانے کے بعد عالیہ دوبارہ اپنی پہلے والی کیفیت میں آگئی ،مگر اس عامر نے اپنی والدہ کو نہیں بلایا ، لیکن اب عامر آفس جاتے ہوئے گھر کی چابیاں ساتھ لے جاتا تا کہ دووازہ کھولنے کے لئے عالیہ کو پریشان نہ ہونا پڑے ۔


Episode  03
محبت تم سے پیا

دن اسی طرح گزرتے رہے ، اب مناہل چھ ماہ کی ہو گئی تھی اور اسی لحاظ سے اس کی غذاکا بھی خیال رکھنا پڑتا تھا مگر عا لیہ کی توجہ آہستہ آہستہ اب مناہل سے بھی دور ہوتی جارہی تھی ۔اور کچھ دنوں بعد مناہل بیمار ہو گئی ڈاکٹرکو دیکھانے پر پتا چلا کہ مناہل کو غذا کی کمی ہو گئی ہے عامر نے عالیہ سے کہا تم اسے وقت کھانا نہیں کھلاتی ،عالیہ نے کہا میں وقت پر ہی کھانا دیتی ہوں تو عامر نے قدرے سخت لہجے میں کہا تو پھر غذا کی کمی کیسے ہو گئی دیکھو عالیہ تمھارے ساتھ جو بھی مسئلہ مجھے بتا دو ،نہ تم اپنا خیال رکھتی ہو اور نہ ہی مناہل کا اتنے میں مناہل رو نے لگ گئی تو عامر نے کہا اس کا کھانا لا کر دو میں خود کھلاؤں گا ،عامر کو مناہل کاکھانا دے کرعالیہ ایک طرف بیٹھ گئی۔ پھر ایک دن عجیب وقعہ پیش آیا ،عامر کے پاس گھر کی چابیاں تو موجود ہوتی تھی۔

ایک دن وہ آ فس سے جلد ی گھر آگیا اور دروازہ کھول کر اندر آیا تو دیکھا عالیہ مناہل کو اٹھا کر زمین پر پھینک رہی تھی تو عامرنے چیخ کر کہا! عالیہ یہ تمھیں کیا ہوگیا ہے تم ایسا کیوں کر رہی ہو دیکھو یہ کتنی معصوم ہے ابھی چند ماہ کی ہے تمھیں تو ماں بننے کی بہت خواہش تھی اب اللہ نے تمھیں اپنی اتنی پیاری رحمت سے نوازا ہے تو تم کیوں ایسا کیوں کر رہی ہو، تم ایسی تو نہیں تھی ،عالیہ فوراً عامر کے سامنے ہاتھ جوڑ کرکہا ،مجھے معاف کردو مجھے نہیں پتا کیا ہوگیا تھا اب میں اس کا خیال رکھو گی بس تم مجھ سے ناراض نہ ہوا کرو عامر نے ننھی مناہل کو عالیہ کی گود میں دیتے ہوئے کہا ۔مجھے لگتا ہے اسے نیند آرہی ہے اسے سلادو عالیہ نے مناہل کو گود میں لیتے ہی پیار کرنا شروع کر دیا اسی دوران عامر کا موبائل بجنا شروع ہو گیا ،عامر نے کمرہ سے باہر آکر کال ریسیو کی تو دوسری طرف اس کا دوست اور آفس کو لیگ حمزہ بات کرہا تھا،ہیلو عامرکیا حال ہے، تم نے میل چیک کی کاباس نے تمھیں صبح رپورٹ دینے کو کہا ہے تم نے بنا لی ہے، عامر کے حواس جو ابھی مکمل بحال نہیں ہوئے تھے، 

اس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے جواب دیا آج میں نے میل نہیں چیک کی ،حمزہ نے عامر سے کہا تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے کیا بات ہے کچھ پریشان لگ رہے ہو مناہل تو ٹھیک ہے عامر نے کہا مناہل ٹھیک ہے مگر عالیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسے نا جانے کیا ہوگیاہے آج وہ مناہل کو مارنا چاہ رہی تھی میں وقت پر آگیا ورنہ نا جانے کیا ہوجاتا ایک بار پہلے بھی ایسا ہی واقعہ ہوا تھا اسے میں نے اپنا وہم سمجھا کیوں کہ اس وقت وہ خود ہی صفائی دینے لگ گئی تھی یہ گر رہی تھی میں دیکھ لیا ۔مگر آج تو حد ہو گئی مجھے نہیں سمجھ آرہا یہ کیا ہو رہا ہے ا س پرحمزہ نے کہا کوئی بات ضرور ہے ایک ماں کبھی اپنی اولاد کی دشمن نہیں بن سکتی تم پیار سےبھابھی سے پوچھو، اور مناہل کے پاس ہی رہو باقی کل آفس میں بات کرتے ہیں اللہ حافظ.



Episode 04
محبت تم سے پیا


فون بند کرکے عامر نے اپنی امی کو کال کرکے گھر آنے کو کہا اور پھر کمرے میں مناہل جو اب تک سو چکی تھی اس کے قریب آکر لیٹ کر گیاعالیہ کے بارے میں سوچنے لگا۔وہ شوخ وچنچل عالیہ کہاں کھو گئی ۔ اور اس کی آنکھوں کے سامنے پچھلے چار سال کسی فلم کی طرح صورت گزنے لگے اسے یاد آرہا تھا کہ عالیہ سے اس کی پہلی ملاقات کس طرح ہوئی تھی عالیہ او ر عامر ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے ہوا کچھ یوں تھا عالیہ سے Orientation کی Date مس ہو گئی تھی Orientation کے دوسرے دن سے کلاسز شروع ہوگئی تھی اور عالیہ ایک ہفتے بعدیونیورسٹی آئی تھی جب عالیہ یونیورسٹی پہنچی تو کلاس شروع ہو چکی تھی اس لئے اسے سب سے پیچھے جاناپڑا عامر کا بیگ سیٹ پر رکھا ہوا تھا اس نے اپنا بیگ اٹھا کر عالیہ کو بیٹھنے کو کہا عالیہ نے عامر کا شکریہ ادا کیا اور بیٹھ گئی ۔

کلاس ختم ہو نے کے عالیہ نے CRسے کہا وہ یونی ایک ہفتے بعد آئی ہے اسے پچھلے لیکچر چا ہئے وہ کس طرح ملے گے ، اس پر CR نے کہا میں آپ کو کلاس کے whatsapp group میں add کرلیتی ہوں وہاں پر لیکچر کے لئے میسج کر دیں کسی سے بھی آپ کو مل جائیں گے۔عالیہ نے میسج کر دیا تو عامر نے Reply کیا،اور کہا کلاسز ختم ہو نے پر لائبریری میں مل لیں ،دونوں کی باقائدہ پہلی ملاقا ت وہی ہو ئی عامر نے عالیہ کو نہ صرف تمام نوٹس دئیے بلکہ یہ بھی آفر کی جو سمجھ نا آئے وہ مجھ سے پوچھ سکتی ہیں ،اس کے بعد عالیہ اور عامر کے درمیان اچھی ہم آہنگی ہو گئی اوروہ دونوں ساتھ ساتھ رہنے لگے۔ عامر اورعالیہ دونوں ہی کا تعلق اچھے گھرانے سے تھاعالیہ کی بڑی بہن شادی شدہ تھی اور امریکہ میں مقیم تھی, جبکہ عالیہ کے والدایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرتے تھے ۔عامر کے والدین اور تایا تائی ساتھ رہتے تھے تایا کی کوئی اولا نہیں تھی جبکہ عامر کا ایک چھوٹا بھائی تھا ۔ 

عامر کے والد بزنس مین تھے۔ پڑھائی کے دو سال کیسے ختم ہو گئے بتا ہی نہیں چلا پہلے پہل ان دونوں کے درمیان صرف اچھی دوستی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ہی یہ دوستی محبت میں بدل گئی ۔دونوں پڑھائی کے دوران بھی اکثر لنچ یا ڈنر باہر کرتے تھے ۔پڑھائی کے دوران عامر اپنے والد کے بزس کو بھی ٹائم دیتا تھا اور ساتھ ساتھ MBA بھی کررہا تھا۔لیکن MBA کرنے کے بعد اس نے جاب کرنے کا ارداہ کیا اور جلد ہی اسے اچھی جاب مل گئی ۔



Episode 05
محبت تم سے پیا

لیکن وہ بزنس کو بھی ٹائم دیتا تھا۔ایک دن عامر نے عالیہ سے کہا کہ میں اب اس قابل ہوں چکا ہوں کہ تمھارے گھروالوں سے تمھارا ہاتھ مانگ سکوں ۔ میں اپنے والدین کو رشتے کے لئے تمھارے گھر بھیجنا چا ہتا ہوں ۔تم اپنے والدین سے بات کرو۔عالیہ نے گھر والوں سے سے بات کی انہیں زیادہ اعتراض نہیں ہوااور اس رشتہ میں بظاہر کو ئی خامی بھی نہیں تھی دوسری طرف عامر کے والدین کھلے ذہن کے مالک تھے دونوں طرف سے یہ رشتہ خوشی خوشی طے پاگیا. 

عامر نے اپنے لئے ایک الگ گھر خریدا تا کہ وہاں وہ دونوں اپنی زندگی کانیا سفر شروع کریں, اور چند ماہ بعد عالیہ عامر کی دلہن بن کر اس کے کمرے میں موجود تھی, عامر نے عالیہ کو دیکھ کر کہا آج میں بہت خوش ہوں، میں نے کبھی سوچا نہیں تھاکہ ہماری شادی اتنی آسانی ہو جائی گی شکر اللہ کا ۔عالیہ نے شرماتے ہو ئے کہا میں بھی بہت خوش ہوں آپ کو پا کر گویا میری زندگی مکمل ہو گئی ہے ،عامر نے عالیہ کا ہاتھ تھام کر کہا مانگو آج کیا مانگتی ہو ،عالیہ نے کہا مجھے صرف آپ کی محبت چاہئے ،کبھی اس میں کمی نہ آئے، میں سب کچھ برداشت کر سکتی ہوں مگر آپ کی بے رخی نہیں ،آپ کے اور میرے درمیان کو ئی بھی ایسا نہ آنے پائے جو اس پیار ومحبت میں کمی کا سبب بنے۔


Episode 06
محبت تم سے پیا

عامر نے عالیہ کے ہاتھوں کو پیار سے چوما اور کہا میں وعدہ کرتا ہوں ایسا ہی ہو گا،وقت کے ساتھ یہ محبت بڑھے گی ،کم نہیں ہو گی، دروازے کی بیل کی آواز سے عامر کی آنکھ کھلی, اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو اس کے والدین سامنے کھڑے تھے . سکینہ بیگم نے کہا کیا ہو ا سب خیریت ہے عالیہ کی طبیعت تو ٹھیک ہے, عامر نے عالیہ کی تمام روداد بیان کی تو سکینہ بیگم کافی پریشان ہو گئی اور کہا اب مناہل کو عالیہ کے پاس اکیلا نہیں چھوڑنا چاہئے جب تک اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہو جاتی اور پھر سکینہ بیگم نے عالیہ سے بہت پیار سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے اس بات کا کچھ خاص جواب نہیں دیا اور کہا کہ امی نہیں پتا مجھے کیا ہو گیا تھا ،ارو پھر وہ ان سے گلے مل کر رونے لگی ۔

سکینہ بیگم نے عالیہ کو پیار کیا اور کہا سب ٹھیک ہو جائے گا چلو تم سو جاؤں میں مناہل کو دیکھ لوں گی۔ دوسرے دن عامر جب آفس پہنچاتوحمزہ نے اس سے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ بھابھی کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے، کیوں نہ کو کسی سائیکولو جسٹ کو دکھا دیا جائے شاید کوئی حل نکل آئے، عامر نے اس کی بات کے اتفاق کیا او رکہا کہ ٹھیک ہے اس پر حمزہ نے کہا میرا کزن سائیکولوجسٹ ہے ابھی اس سے کال کر کے بات کرتا ہوں، آفس کے بعد دونوں ڈاکٹر احسن کے کلینک پہنچے اور عالیہ تمام کیفیت بیان کی ڈاکٹرا حسن نے دوسرے دن گھر آنے کا وعدہ کیا.


Episode 07
محبت تم سے پیا

اور عامر کو تاکید کی کہ عالیہ سے نہایت محبت سے پیش آئے ۔دونوں نے اجازت طلب کی اور حمزہ نے کہا کہ کل آفس کے بعد میں اور ڈاکٹرتمھارے گھر آئیں گے فکر نہیں کرو انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ گھر آکر عامر اپنی امی سے کہا اس بارے میں بات کی تو سکینہ بیگم نے کہا مجھے نہیں لگتا کہ اسے کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے۔ بس کو ئی بات ہے جو یہ کہنا نہیں چا رہی ہے اور وہ اسے پریشان کر رہی ہے ،عامرنے کہایہی بات توڈاکٹر آکر معلوم کریں گے۔اور آج عالیہ کی طبیعت کیسی رہی ،سکینہ بیگم نے کہا کہ ٹھیک نہیں تھی بلکل خاموش ۔ 

عامر نے اپنی امی سے کہا کہ آپ مناہل سے اس بارے میں بات نہیں کیجئے گا، میں مو قع دیکھ کر بات کر لوں گا مجھے یقین ہے کہ عالیہ اس بارے میں کچھ نہیں کہے گی کیوں کہ وہ خود بھی اس کیفیت سے نکلنا چاہتی ہے ۔سکینہ بیگم نے کہا ! بیٹاجو تم مناسب سمجھو اس کے بعد انھوں نے کھانا لگایا اور سب نے ساتھ مل کر کھانا کھایا، تو اسی دوران مناہل کی رونے کی آواز آئی تو عامر کی والدہ نے کہا عالیہ تم کھانا کھاؤں میں دیکھتی ہو ں ۔ عامر نے عالیہ کی طرف پیار سے دیکھا اور کہا کیسی طبیعت اب تمھاری ۔ عالیہ نے کہا ٹھیک ہے ۔عامر نے کہا ٹھیک نہیں ہے مجھے وہ پہلے والی شوخ و چنچل ہر بات پر ہنسنے مسکرانے والی عالیہ چاہئے۔پھر اس نے سنجیدہ لہجے میں کہا کہ میں نے اپنے دوست حمزہ سے تمھاری کیفیت کا ذکر کیا تو اس بتایا کی اس کا کزن سائیکولوجسٹ ہے ۔ 

آج میں اور حمزہ اس کے پاس گئے تھے اور تمھاری کیفیت بھی بتا دی ہے وہ کل ہمارے گھر آئیں گے تم سے بات کریں گے شایدہم تمھاری کیفیت سمجھ نہیں پا رہیں ہیں وہ سمجھ جائے اور کو ئی حل نکل آئے ۔



Episode 08
محبت تم سے پیا

ایک ہفتے بعد ڈاکٹر پھر آئے اور عالیہ کا سشن شروع ہوا اس بار ڈاکٹر نے عالیہ کو آنکھیں بند کرکے اسکی باتوں کو غور سے سننے کو کہا وہ ایک طرح کی تھیریپی کر رہے تھے ۔اس کے بعد انھوں عالیہ سے پوچھا کہ آپ کو کیا نظر آیا ہے عالیہ کہا عامر! اچھا اب آپ اپنی آنکھیں کھول لیں اس تھیریپی کے بعدعالیہ کو اپنا جسم بہت ہلکا محسوس ہوا اس کے بعدڈاکٹر نے عالیہ سے پوچھا کہ مناہل تو آپ بیٹی ہے اس پر عالیہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اورا س نے کہنا شروع کیاکہ میں عامر سے بے پناہ محبت کرتی تھی میری زندگی کی ہر خوشی اسی سے شروع ہو تی تھی اور اسی پر ختم ۔جب میں ماں بنی تو بھی میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا ،لیکن مناہل کے بعد عامر نے مجھے اگنور کرنا شروع کر دیا اسے صرف مناہل نظر آتی تھی میں نہیں ۔ 

عالیہ اب آواز کے ساتھ رونے لگی ڈاکٹر نے اسے پانی دیا۔کچھ توقف کے بعد پھر اس نے کہنا شروع کیا یہ سب مناہل کی وجہ سے ہو ا ہے میں یہ چاہتی ہو ں کہ یہ نہیں ہو گی تو عامر کی محبت مجھے پھر سے مل جائے گی یہ کہہ کر وہ اور بھی رونے لگی ڈاکٹر نے کہا ،اچھا یہ بتاؤ اسی کی وجہ سے کیا آپ دونوں کا رشتہ اور بھی مضبوط نہیں ہو گیاہے یہ تحفہ تم نے عامر دیا ہے عامر تم سے دور نہیں ہو ابلکہ اور بھی قریب ہو گیا ہے ۔کیونکہ تم مناہل کی ماں ہو ۔عالیہ یہ سن کر کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گئی جیسے اسے کوئی سہارا مل گیا ہو ۔اس کے بے چین دل کو قرار آگیا ہو ۔اس نے اس انداز میں پہلے کبھی نہیں سوچا تھا ۔اس نے داکٹر سے کہا آپ ٹھیک کہ رہیں ہیں ۔

آخری قسط
Episode  09
محبت تم سے پیا

اس کے بعد وہ کمرے باہر چلی گئی اور مناہل کو گود میں لے کر رونے لگی ۔ڈاکٹر نے عامرکو دوسرے دن آفس کے بعدملنے کو کہا۔ اور اجازت لے کر چلا گیا ۔دوسرے دن عامر اور حمزہ ڈاکٹر احسن کے پاس بیٹھے ہو ئے تھے ڈاکٹر نے کہا عالیہ صرف آپ کی محبت چاہتی ہے جس طرح آپ پہلے اس سے محبت کرتے تھے اسی انداز کو پھر اپنائیں مناہل ابھی بہت چھوٹی ہے اسے یہ نہیں احساس اسے کون پیا ر کر رہا ہے اور کون اس کا خیال رکھ رہا ہیب مگر عالیہ کو ان ساری باتوں سے فرق پڑتا ہے اور پڑ رہا ہے عامر یہ سن پریشان ہو گیا کہ بیٹی سے محبت بھی کیا کوئی پریشان ہو سکتا ہے ۔لیکن آپ فکر نہ کریں میں اب اسے طرح ملوں گا جیسے وہ چاہتی ہے۔ 

اس بار جب عامر گھر جانے لگا تو عالیہ کے لئے اس نے گجرے خریدے ، اورفون کیا ،عالیہ نے فون ریسیو کیا اس پرعامر نے بڑے شوخ انداز میں کہا کہ جی جناب کیا حال ہیں آپ کے یہ سن کر عالیہ چونک گئی۔ مناہل ٹھیک ہے عالیہ نے کہا اس پر عامر نے کہا میں نے مناہل کا نہیں تمھارا حال پو چھا ہے ۔اور جہاں تک مناہل کی بات ہے وہ تو اچھی ہی ہو گی کیونکہ تمھاری بیٹی جو ہے اس پر عالیہ کے آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اس نے فون بند کر دیا۔گھر آکر عامر نے عالیہ کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر کہا یہ بات تم مجھ سے پہلے بھی کہہ سکتی تھی میری وجہ سے تمھیں کتنی تکلیف ہو میں معافی چاہتا ہوں اس نے عالیہ کے ہاتھوں چوم کر اپنے ہاتھوں سے گجرے پہنائیں۔اب عامر کا روز کا معمول تھا کہ وہ آفس کال اب بھی کرتا تھا مگر صرف عالیہ کے لئے۔ کچھ دن میں عالیہ میں حرت انگیز تبدیلیاآنا شروع ہو گئی اس نے سجنا سنورنا شروع کر دیا اور مناہل کے ساتھ گھر کا بھی خیال رکھنا شروع کر دیا۔

دوستوں اس کہانی کا مقصد صرف اتنا تھا کہ ہماری چھوٹی چھوٹی باتیں کبھی بڑا طوفان کھڑا کر دیتی ہیں ہر رشتہ اہمیت کا حامل ہو تا ہے نئے رشتہ بننے کا مطلب یہ نہیں کہ پرانے رشتے اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں، ہر ایک کو اس کا مقام دینا ضروری ہے ،تب ہی گھر ایک جنت بنتا ہے۔

جمعرات، 19 ستمبر، 2019

لطیفے

ستمبر 19, 2019 0
لطیفے



1
ایک پٹھان نے روزہ رکھا ،دوپہر کو ہی اس کا برا حال ہو گیا ۔ٹائم گزارنے کے لےے اس نے FM ریڈیو فون کیا میزبان نے پوچھا۔
”خان صاحب کیا سننا پسند کریں گے “۔
پٹھان بولا ”بھائی جان مغرب کی آذان سنا دو ۔“

2
ایک سردار سے انٹر ویو لینے والے نے پوچھا تمہارا نام ؟
سردار بولا ”سندر لال چڈا ۔“
”Speak in English“ : آفیسر
”Beautiful red under wear “ :سردار

3
لڑکی پٹھان سے ”میری امی کو تم بہت پسند آئے ہو ۔“
پٹھان شرماتے ہوئے :”کچھ بھی ہو پر ہم شادی تم سے ہی کرے گا ،خالہ سے بولو ہم کو بھول جائے۔“

4
سردار نے تقریر کرتے ہوئے کہا۔”کسی کو میری بات پہ اعتراض تو نہیں ؟“
ایک آدمی اٹھ کر بولا۔ ”جی مجھے ہے ۔“
سردار نے کہا ۔ ”تم جاو¿ جہنم میں ........ ہاں بھئی اور کسی کو اعتراض ہو ؟“

5
شیخ میمن سے ”لیجئے نا اور رس گلہ ؟“
میمن نے کہا ۔ ”نہیں شکریہ میں پہلے ہی چارلے بیٹھا ہوں ۔“
شیخ بولا ”خیر لےے تو آپ نے سات ہیں مگر یہاں گن کون رہا ہے ؟“

6
بچہ اپنی دادی سے۔”دادی کیا ہم ہمیشہ پانچ ہی رہیں گے ؟میں باجی آپ امی اور ابو بس ؟“
دادی پیار سے بولی ”نہیں بیٹا جب تیری شادی ہو جائے گی توہم چھ ہو جائیں گے ۔“
بچہ :” باجی کی شادی ہو گی تو ہم پھر پانچ ہو جائیں گے“۔
دادی۔ ”جب میرے لال کا بیٹا ہو گا تو ہم چھ ہو جائیں گے ۔“
بچہ ”دادی پھر آپ مر جائیں گی تو ہم دوبارہ پانچ ہو جائیں گے “۔
دادی ۔”لخ دی لعنت تیرے تے بے غیرت دے آ پترا سو جا چپ کر کے “۔

7
ایک آدمی کا انتقال ہوا اس کا دوست اس کی بیوی کے پاس آیا اور بولا ۔
”کیا میں مرحوم کی جگہ لے سکتا ہوں ؟“
ا دوست کی بیوی بولی ۔”مجھے کوئی اعتراض نہیں آپ گورگن سے پوچھ لیں “۔

8
لڑکا فون پہ ۔”پلیز مجھے کچھ لطیفے ایس ایم ایس کرو ۔“
لڑکی ۔”سوری میں نماز پڑھ رہی ہوں “۔
لڑکا ”ہا ....ہا....ہا....بس اسی طرح کے چند اور بھیج دو “۔
9
صدقہ دینے سے ہر بلا ٹل جاتی ہے سوائے اس کے جو آپ کے نکاح میں آ گئی ہو ۔

10
پٹھان چرس پیتے ہوئے بیوی سے ۔”تم کون ہو ؟“
بیوی نے کہا ۔”پاگل ہو گئے ہو ....کیا اپنی بیوی کو ہی بھول گئے ؟
پٹھان نے جواب دیا ۔”نشہ ہر غم بھلا دیتا ہے باجی “۔

11
پٹھان سعودی عرب گیا اسے عربی نہیں آتی تھی ۔ٹیکسی میں بیٹھا راستے میں اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ڈرائیور کو کیا کہہ کر روکے ۔آخر کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے ڈرائیورکے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔
”صدق اللہ العظیم “۔

12
پہلوان کی ٹانگ نیلی ہو گی ۔حکیم کے پاس گیا ۔اس نے معائنہ کر کے بتایا 
”زہر پھیل رہا ہے ....ٹانگ کاٹنی پڑے گی “۔
تین دن بعد پہلوان کی دوسری ٹانگ بھی نیلی ہو گئی ۔ دوبارہ حکیم کے پاس گیا ۔ اس نے کہا ۔”یہ بھی کاٹنی پڑے گی “۔اس طرح اس کی دنوں ٹانگیں کاٹ کے پلاسٹک کی لگا دیں ۔چند دن بعد پلاسٹک کی ٹانگیں بھی نیلی ہو گئیں۔ وہ دوبارہ حکیم کے پاس پہنچا ۔اس نے معائنہ کیا اور کہا۔
”اب سمجھ آئی ....پریشان ہونے کی ضرورت نہیں,تمہاری دھوتی کا رنگ اتر رہا ہے ۔ “۔

13
سکھ دو سال کی ٹریننگ کے بعد جب محاذ پہ گیا تو اس نے اپنے آفیسر سے پوچھا ۔
”سر بیرل کا رخ اپنی طرف کرنا ہے یا دشمن کی طرف ؟“
آفیسر نے کہا ۔”بیٹا تو جدھر بھی کر لے فائدہ ملک کا ہی ہے “۔

14
دو پٹھانوں کو طالبان نے پکڑ لیا ۔پوچھا ۔ ”کون ہو ؟“
کہا ۔”ہم مسلمان ہیں ؟“
پہلے سے پوچھا ۔”نام کیا ہے ؟“
کہا ”اخلاص خان “
بولے ”سورة اخلاص سناو¿ ؟“اس نے سورة اخلاص سنائی تو اسے چھوڑ دیا اور دوسرے سے پوچھا ۔”تمہارا کیا نام ہے ؟“
وہ گھبرا کے بولا ۔”نام تو یسین خان ہے مگر پیار سے کوثر کہہ کر بلاتے ہیں “۔
15
ٹیچر ۔”پپو پٹھان کی بیٹی کو بھگا کر لے گیا اس فقرے کو مستقبل میں تبدیل کرو“۔
طالب علم ۔”پپو کی نمازِ جنازہ شام چھ بجے شہیدوں والی جنازہ گاہ میں ادا کی جائے گی “۔

16
استاد نے سکھ سے کہا تمہارا بیٹا فیل ہے یہ دیکھو اس کی رزلٹ شیٹ ۔
ریاضی 19
اسلامیات 21
انگلش 20
سائنس 19
اردو 18
ٹوٹل 97
سردار بولا ”ٹوٹل وچ تے کمال کر دتا ہس ۔اس سبجکٹ دا استاد کیڑا ہے “۔

17
استاد نے پوچھا ۔”اگر تمہارے دوست کو دو سو کی ضرورت ہو اور تمہارے پاس پانچ سو کا نوٹ ہو ....تم وہی نوٹ اس کے حوالے کرتے ہو تو وہ کتنے پیسے واپس کرے گا ؟“
شاگرد ”کچھ بھی نہیں “
استاد ”تم حساب کے بارے کچھ نہیں جانتے “۔
شاگرد ۔”سر آپ ان بے غیرتوں کے بارے کچھ نہیں جانتے “۔

18
شیخ مرتے وقت ۔”میری بیو ی کہاں ہے ؟“
بیوی ۔”میں یہاں ہو ںآپ کے پاس “
شیخ ”میرے بیٹے ،بیٹیاں کہاں ہیں سارے “۔
تمام یک زبان ہو کر ۔”ہم آپ کے پاس ہی ہیں ابو جان “۔
شیخ ”تو پھر ساتھ کے کمرے میں پنکھا کیوں چل رہا ہے ؟“۔

19
خان صاحب ایک دوست کے گھر گئے تیز بارش شروع ہو گئی پٹھان کے دوست نے کہا یار آج یہیں رہ جاو¿ بارش بہت تیز ہے ۔خان صاحب بولا ٹھیک ہے اس کا دوست اس کے لےے بستر ٹھیک کرکے فارغ ہوا دیکھا تو خان صاحب غائب تھا ،تھوڑی دیر بعد خان صاحب بارش میں بھیگا ہوا اس کے پاس آیا دوست نے پوچھا کہاں گئے تھے خان صاحب نے جواب دیا ہم گھر والوں کو بتانے گئے تھے کہ آج بارش کی وجہ سے ہم دوست کے گھر رات گزاریں گے ۔

20
ایک دریا کے کنارے دو سردار دریا کے اندر چمچ سے دہی ڈال رہے تھے ۔ ایک پٹھان وہاں آیا اور پوچھا ”بھائی یہ کیا کر رہے ہو ۔؟“
سردار بولے ”ہم لسّی بنا رہے ہیں “
پٹھان ”ہا ....ہا....ہا او پاگل کے بچو اسی لےے لوگ تم پہ لطیفے بناتے ہیں اتنی لسّی پیئے گا تمہارا باپ ؟“

21
”وائف ،بیوی اور بیگم میں کیا فرق ہے ............؟“
” کچھ نہیں میرے دوست یہ انڈیا ،بھارت اور ہندوستان کی طرح ایک ہی مصیبت کے تین نام ہیں ۔“

22
فقیر فون پہ ”ہیلو پیزا ! ہٹ “ 
آپریٹر ”یس سر “
فقیر ”31 بڑے پزا 6چکن اور 2پیپسی بھیج دو ۔“
آپریٹر ” کس کے نام پہ ؟“
فقیر ”اللہ کے نام پہ ۔“

23
ریس دیکھتے ہوئے پٹھان نے اپنے ساتھ بیٹھے بندے سے پوچھا انعام کس کو ملے گا؟“ اس نے کہا ” سب سے آگے والے کو ۔“
پٹھان :”تو یہ پیچھے والے کیوں دوڑ رہے ہیں ۔“

24
:سردار
Nothing
کا کیا مطلب ہے ؟
“ ٹیچر ”کچھ نہیں ۔“
سردار ”بے غیرتی نہ کر اگر لفظ بنایا ہے تو کچھ مطلب تو ہو گا ۔“

25
لڑکی استاد سے ”یہ پیار کیا ہوتا ہے ؟“
استاد :”جب تم بڑی ہو کر اچھی بچی بنو گی تو تمہیں بھی ایک پیار کرنے والا ملے گا ۔“
لڑکی :”اگر میں اچھی بچی نہ بنی پھر ؟“
استاد :”پھر کئی پیار کرنے والے ملیں گے ۔“

26
پٹھان نے اپنی قضا نماز کی نیت کی : ”2رکعت نماز فرض قضا فجر ، 4نومبر 2008 5:20 والا نیا ٹائم اللہ اکبر ۔

27
پٹھان:
I am going۔
” کا کیا مطلب ہے ؟“
پروفیسر : ”میں جا رہا ہوں ۔“
پٹھان: ”ایسے تو تیرا باپ بھی نہیں جا سکتا پہلے مطلب بتا ۔“

28
پٹھان کو کسی نے دعوت پر بلایا پٹھان اس کے گھر گیا تو وہ نہیں تھا اور دروازے پر تالا لگا ہوا تھا ،پٹھان کو غصہ آیا اور اس نے دروازے پر لکھ کر لٹکا دیا کہ۔ ” میں آیا ہی نہیں تھا ۔“

29
باپ بیٹے سے ”پڑوس کی لڑکی کو دیکھو امتحان میں فرسٹ آئی ہے “
بیٹا ” اسی کو دیکھ دیکھ کر تو فیل ہوا ہوں ۔“

30
سردار ”جدوں میری نویں نویں شادی ہوئی سی تو مجھے تیری بھابی انیں چنگی لگدی سی کہ میرا دل کردا سی کہ انوں کھا جاواں “
دوست ”اور اب “
سردار ” کھا ہی جاندا تے چنگا سی “

31
دو سردار جنگل میں گئے سامنے سے شیر آگیا ایک نے مٹی اُٹھا کر شیر کی آنکھوں میں ڈالی اور بھاگنے لگا دوسر ا کھڑا رہاوہ اُس سے بولا ” اوے بھاگ “
دوسرا بولا ” میں کیوں بھاگوں مٹّی تو توُ نے ڈالی ہے “

32
سردار بیٹے سے ”اوے تیرے رزلٹ کا کیا بنا “
بیٹا ”مس کہندی اے اس کلاس وچ ایک سال اور لگانا پڑے گا۔“
سردار ”سال بھانویں دو تین لگ جانڑں پر فیل نہ ہوئیں میرا پتّر “
33
پہلا دوست ” یار میں جس لڑکی کو چاہتا تھا اس نے مجھ سے شادی نہیں کی “
دوسرا دوست ” تم نے اسے بتایا نہیں کہ تمہارا چچا کتنا امیر آدمی ہے “
پہلا دوست ” بتایا تھا ۔“
دوسرا دوست ” پھر ؟“
پہلا دوست ”پھر کیا ابھی وہ میرچچی ہے “

34
وکیل ”مائی لارڈ قانون کی کتاب کے صفحہ نمبر 15کے مطابق میرا مﺅکل بے گناہ ہے “
جج ” کتاب پیش کی جائے “ کتاب پیش کی گئی ،جج نے مطلوبہ صفحہ کھولا تو اُس میں پانچ پانچ ہزار کے دو نوٹ رکھے ہوئے تھے ۔
جج ”اس طرح کے دو ثبوت اور پیش کےے جائیں “

35
پٹھان جراسک پارک فلم دیکھ رہا تھا فلم میں ڈائینو سارس سکرین کی طرف دوڑا اور پٹھان جلدی سے اٹھ کر باہر کی طرف بھاگا اس کے دوست نے اسے کہا کہ ” بیوقوف ڈر کیوں رہے ہو یہ تو صرف فلم ہے “
پٹھان ”مجھے بھی پتہ ہے کہ یہ فلم ہے مگر اسے کیا پتہ وہ تو جانور ہے “

36
پٹھان۔ ”جب ہم چھوٹا سا تھا تو مینارِپاکستان سے گر گیا تھا “
دوسرا پٹھان ”پھر تم مر گیا تھا یا بچ گیا ؟“
پہلا پٹھان ”ہم کو یاد نہیں ہم اس وقت چھوٹا تھا “۔

37
پٹھان دوسرے پٹھان سے ”اوے تمہارے چھوٹے بھائی کی مونچھیں ہیں اور تمہاری نہیں ؟“
پٹھان ”اس میں حیرانی کی کیا بات ہے وہ باپ پہ گیا ہے اور میں ماں پر ۔“

38
استاد پٹھان سے ” کہانی سناﺅ “
پٹھان ”ایک دن ہم ان کے گھر گیا تو وہ سوئے ہوئے تھے ، ایک دن وہ ہمارے گھر آئے توہم سوئے ہوئے تھے “
نتیجہ ”جیسا کرو گے ویسا بھرو گے “

39
بیوی شوہر سے ”سنا ہے آپ کا دوست غلط لڑکی سے شادی کر رہا ہے آپ اس کو روکتے کیوں نہیں ۔“
شو ہر ” میں کیوں روکوں اس کمینے نے مجھے روکا تھا کیا “۔

40
ایک عورت پٹھان انسپکٹر سے ”میرا شوہر ایک ہفتہ پہلے آلو لینے گیا تھا ابھی تک واپس نہیں آیا “۔

پٹھان ”تو بہن کچھ اور پکا لو “۔