بیسٹ اردو پوئٹری پی

بیسٹ اردو پوئٹری پی

BEST URDU POETRY P

تازہ ترین

اردو غزلیں۔ اردو شاعری۔ اچھی باتیں ۔ ندیم بھابھہ غزلیں ۔ پنجابی شاعری ۔اسلامک غزل۔ شاعر تہزیب حافی۔ قصہ حضرت لعل شہباز قلندر۔ واقعہ حضرت اویس قرنی ۔ ۔یو ٹیوب چینل

منگل، 4 جنوری، 2022

deriv broker

جنوری 04, 2022 0
deriv broker

 Deriv broker is the best broker 

Risk disclaimer..

Disclaimer: Forex Trading

Deriv offers complex derivatives, such as options and contracts for difference (“CFDs”). 

These products may not be suitable for all clients, and trading them puts you at risk. 


Please make sure that you understand the following risks before trading Deriv products: 

a) you may lose some or all of the money you invest in the trade, 

b) if your trade involves currency conversion, exchange rates will affect your profit and loss. You should never trade with borrowed money or with money that you cannot afford to lose.




منگل، 12 مئی، 2020

اسلامک

مئی 12, 2020 0
اسلامک
                                       

زرا سوچو مسلمانو


                                          فرشتوں کو تیرے سامنے جھکایہ ہے رب نے
تجھے اشرف المخلوقات بنایا ہے رب نے

تجھ کو دے کر نیکی اور بدی کا شعور
زمین کو تیرے پیروں تلے بچھایا ہے رب نے

بخشا ہے اس نے تجھے رحمتوں کا خزانہ
آسمان کو تیرے سر پہ سجایا ہے رب نے

نہ چھوڑا اس نے تجھ کو اندھیری رات میں تنہا
چاند کو تیری راتوں میں چمکایہ ہے رب نے

سہنی بھی پڑی اگر تجھ کو کڑی دھوپ میں مشقت
تو پیپل کی ٹھنڈی چھاوں میں بھی سُلایا ہے رب نے

پالا ہے اس نے تجھے تیرے ہر گناہ کے بعد بھی
رزق تیرے مقدر کا تجھے کھلایا ہے رب نے

تو نے کیے گناہ تو دیا اس نے تجھے توبہ کو موقع
تیری سچی توبہ کو قبول کرنے کا وعدہ نبھایا ہے رب نے

دیکھا اگر کبھی تجھے پیاس میں مبتلا
تیرے پیاسے ہونٹوں کو پھر پانی پلایا ہے رب نے

سوکھنے نہ دیا اس نے کبھی تمہارے واسطے سمندر کو
آسمان سے پھر پانی بھی برسایا ہے رب نے

تونے تو سب کچھ پا لیا اپنے رب سے مگر کبھی سوچا ہے تو نے
تجھے زندگی دےکر تیری ذات سے کیا پایا ہے رب نے

ہزار نعمتوں سے بھی بڑھ کر کیا یہ کافی نہیں ہے مسلمانو
ہمیں اپنے محبوب کا اُمتی بنایا ہے رب نے

Poet: SAGAR HAIDER ABBASI
 

پیر، 30 ستمبر، 2019

جھوٹی چیونٹی

ستمبر 30, 2019 0
جھوٹی چیونٹی


حافظ ابن قیمؒ نے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے،وہ فرماتے ہیں کہ ایک چیونٹی ایک مرتبہ اپنے بل سے نکلی، اسے بل سے باہر مری ہوئی ٹڈی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ملا،اس نے اسے اُٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی کوشش میں ناکام رہی،چنانچہ اس نے وہ ٹکڑا وہیں چھوڑا اور چلی گئی۔تھوڑی دیر کے بعد اس کے ساتھ کچھ اور چونٹیاں بھی آ گئیں تا کہ وہ سب مل کر اس ٹکڑے کو اُٹھائیں اور لے جائیں۔

ایک آدمی یہ منظر دیکھ رہا تھا، اس نے اس ٹکڑے کو زمین سے اُٹھا کر چھپا دیا، سب چونٹیوں نے اس ٹکڑے کو اِدھر اُدھر تلاش کرنا شروع کردیا، جب انہیں وہ ٹکرا نہ ملا تو باقی سب چونٹیاں چلی گئیں۔ اور اطلاع دینے والی چونٹی وہیں گھومتی رہی،اس آدمی نے وہ ٹکڑا اس کے سامنے رکھ دیا۔اس نے ٹکڑے کو پھر اُٹھانے کی کوشش کی لیکن اس کی یہ کوشش بھی بے سود رہی،چنانچہ وہ پھر گئی اور ان چونٹیوں کو بلا کر لے آئی۔

اس آدمی نے کئی بار ایسا کیا، بالآخر ان چونٹیوں نے تنگ آ کر اس چونٹی کو گھیرے میں لے لیا اور اس کے جسم کا ایک ایک عضو الگ کر دیا۔

اس آدمی نے یہ واقعہ جب اپنے استاد کو سُنایا تو انہوں نے حقیقت سے پردہ اُٹھاتے ہوئے کہا:دوسری چونٹیوں نے اس چونٹی کو اس لیے قتل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں یہ بات ڈال دی ہے کہ جھوٹ بُری چیز ہے،اور جھوٹے کو سزا ملنی چاہئے۔اگرچہ اس ٹکڑے کے نہ ملنے میں اس کا اپنا کوئی قصور نہیں تھا لیکن چونکہ وہ چونٹی ان کے نزدیک جھوٹی ثابت ہو چکی تھی اس لیے انہوں نے مل کر اُسے جان سے ہی مار دیا۔

جھوٹ اس قدر ناپسندیدہ چیز ہے کہ انسان کے علاوہ دیگر مخلوقات بھی اس سے نفرت کرتی ہے۔

قدرت کا معاملہ

ستمبر 30, 2019 0
قدرت کا معاملہ


ایک بھٹے والا ٹھیلا چلاتا تھا۔ روز اس کے پاس ایک بچہ آتا تھا۔ جو اس سے بھٹہ لیا کرتا تھا “چاچا ایک بھٹہ تو دےدو” وہ دےدیا کرتا تھا۔ ایک دن ایک لمبی سی گاڑی اس بھٹے والے کے پاس آی اور اسے 20 بھٹوں کا آڈر دیا. بھٹے والا بہت خوش ہوا۔ اس نے اسے اچھا اچھا سا بنا کر دے دیا۔ اگلے دن پھر وہی گاڑی دوبارہ آی اور پھر 20 بھٹوں کا آڑد دیا _ایسے وہ گاڑی والا روز اپنے بچوں اور گھر والوں کے لیے 20 بھٹے لیجانے لگا۔ بھٹے والے کا کاروبار بھی اسی کاروبار بھی اسی طرح اچھا ہونے لگا۔

ایک دن بھٹے والا بڑا مصروف تھا اسی لمبی گاڑی والے کے بھٹے تیار کرنے میں۔ اتنے میں وہی بچہ آیا جو روز اتا تھا اور کہا۔ ”چاچا ایک بھٹہ تو دےدو”. تو بھٹے والے نے کہا “ابھی جاؤ یہاں سے ،میرے پاس وقت نہیں، میں مصروف ہوں. بار بار آجاتے ہیں بھٹہ مانگنے”! بچہ چلا گیا. بھٹے والا بھٹے تیار کر کے انتظار کرتا رہا وہ لمبی سی گاڑی اس دن نہ آئی۔ بھٹے والے نے قدرت کے ماجرے کا نوٹس نہ لیا۔ اگلے دن پھر وہ انتظار کرتے رہا وہ لمبی گاڑی پھر نہیں آئی۔ اس کے اگلے روز دوبارہ انتظار کے باوجود گاڑی نہ آئی۔ ایسے ایک ہفتہ گزر گیا۔ اب تک بھٹے والے کو سمجھ نہ آیا کہ قدرت کا ماجرا ہے کیا۔؟ پھر وہ بچہ آیا بھٹے والے کے پاس “چاچا ایک بھٹہ تو دےدو”۔ بھٹے والے نے بچے کی طرف دیکھا اور پھر بھی نہ سمجھا کہ قدرت کا ماجرا کیا ہے. بہرحال اس کو ایک بھٹہ دے ہی دیا. یہاں اس نے بھٹہ دیا گھنٹے دو گھنٹے کے بعد وہ لمبی گاڑی آگئی کہ “بھائی 20 بھٹے دے دو ”- اس نے جلدی جلدی بھٹے بنائے اور گاڑی والے کو دے دیا اور گاڑی کے مالک سے پوچھا “سرکار آپ ایک ہفتے سے کہاں تھے؟ “ تو مالک نے کہا “یہ میرے دفتر سے گھر جانے کا رستہ ہے یہاں رستے میں ایک پٹرول پمپ ہے اس پمپ سے میں گاڑی میں تیل بھرواتا ہوں۔ تو ایک بار اس کے پٹرول میں کچرا آگیا تو میں نے وہاں سے اپنا رستہ بدل لیا۔ اب میں دوسرے رستے سے جاتا ہوں۔

اور دوسرے پمپ سے تیل بھرواتا ہوں ۔ لیکن اس پمپ کے مالک نے مجھے رابطہ کیا اور کہا میرے ملازمین کی غلطی ہے اگلی بار سے ایسا نہیں ہوگا۔ تو میں نے اسے معاف کر دیا- اور اپنا یہ رستہ واپس اختیار کر لیا”. بھٹے والا گھر گیا رات سوچتا رہا پھر اسے سمجھ آیا کہ جب اس نے بچے کو بھٹہ دینا بند کیا تو اللہ نے اس لمبی گاڑی والے کے پٹرول میں بھی کچرا ڈال دیا اور جب اس نے بچے کو بھٹہ دینا شروع کیا۔

تو اللہ نے اس گاڑی والے کا معافی نامہ اس پمپ والے سے کروا دیا۔ گویا اس کا اپنا رزق اس بچے کے پیٹ سے جڑا ہوا تھا جو نہ تو اسکا ملازم تھا نہ ہی اولاد تھی نہ ہی جاننے والا تھا بس اللہ کا ایک بندہ تھا پھر وہ یہ سمجھ گیا کہ کسی کو رزق پہنچانے کے لیےاللە کسی کو رزق دیتا ہےاور جب ہم وہ رزق نہیں پہنچاتے تو اللہ ہمارا رزق بھی روک دیتا ہے اور وہ بندا کون ہوتا هے وہ ہم کبھی نہیں جان سکتے۔.

پیر، 23 ستمبر، 2019

قدرت کا معجزہ

ستمبر 23, 2019 0
قدرت کا معجزہ

😢 ایک حاجی صاحب کافی بیمار تھے .
کئی سالوں سے ہر ہفتے پیٹ سے چار بوتل پانی نکلواتے تھے
اب ان کے گردے واش ہوتے ہوتے ختم ہوچکے تھے۔
ایک وقت میں آدھا سلائس ان کی غذا تھی۔ سانس لینے میں بہت دشواری کا سامنا تھا۔
نقاہت اتنی کہ بغیر سہارے کے حاجت کیلئے نہ جاسکتے تھے۔
ایک دن چوہدری صاحب ان کے ہاں تشریف لے گئے
اور انہیں سہارے کے بغیر چلتے دیکھا تو بہت حیران ہوئے انہوں نے دور سے ہاتھ ہلا کر چوہدری صاحب کا استقبال کیا‘
چہل قدمی کرتے کرتے حاجی صاحب نے دس چکر لان میں لگائے‘
پھر مسکرا کر ان کے سامنے بیٹھ گئے‘
ان کی گردن میں صحت مند لوگوں جیسا تناؤ تھا۔
چوہدری صاحب نے ان سے پوچھا کہ یہ معجزہ کیسے ہوا؟
کوئی دوا‘ کوئی دعا‘ کوئی پیتھی‘ کوئی تھراپی۔ آخر یہ کمال کس نے دکھایا۔
حاجی صاحب نے
فرمایا میرے ہاتھ میں ایک ایسا نسخہ آیا ہے کہ اگر دنیا کو معلوم ہوجائے تو سارے ڈاکٹر‘ حکیم بیروزگار ہوجائیں۔
سارے ہسپتال بند ہوجائیں اور سارے میڈیکل سٹوروں پر تالے پڑجائیں۔
چوہدری صاحب مزید حیران ہوئے کہ آخر ایسا کونسا نسخہ ہے جو ان کے ہاتھ آیا ہے۔
حاجی صاحب نے فرمایا کہ میرے ملازم کی والدہ فوت ہوگئی‘
میرے بیٹوں نے عارضی طورپر ایک چھ سات سالہ بچہ میری خدمت کیلئے دیا‘
میں نے ایک دن بچے سے پوچھا کہ آخر کس مجبوری کی بنا پر تمہیں اس عمر میں میری خدمت کرنا پڑی‘
بچہ پہلے تو خاموش رہا پھر سسکیاں بھر کر بولا کہ ایک دن میں گھر سے باہر تھا‘
میری امی‘ ابو‘ بھائی‘ بہن سب سیلاب میں بہہ گئے
میرے مال مویشی ڈھور ڈنگر‘ زمین پر رشتہ داروں نے قبضہ کرلیا۔
اب دنیا میں میرا کوئی نہیں۔
اب دو وقت کی روٹی اور کپڑوں کے عوض آپ کی خدمت پر مامور ہوں۔
یہ سنتے ہی حاجی صاحب کا دل پسیج گیا اور پوچھا بیٹا کیا تم پڑھوگے بچے نے ہاں میں سرہلا دیا۔
حاجی صاحب نے منیجر سے کہا کہ اس بچے کو شہر کے سب سے اچھے سکول میں داخل کراؤ۔
بچے کا داخل ہونا تھا کہ اس کی دعاؤں نے اثر کیا‘
قدرت مہربان ہوگئی‘
میں نے تین سالوں کے بعد پیٹ بھر کر کھانا کھایا‘
سارے ڈاکٹر اور گھروالے حیران تھے۔
اگلے روز اس یتیم بچے کو ہاسٹل میں داخلہ
دلوایا اور بغیر سہارے کے ٹائلٹ تک چل کرگیا‘ میں نے منیجر سے کہا کہ شہر سے پانچ ایسے اور بچے ڈھونڈ کرلاؤ جن کا دنیا میں کوئی نہ ہو۔
پھر ایسے بچے لائے گئے
انہیں بھی اسی سکول میں داخل کرادیا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور آج میں بغیر سہارے کے چل رہا ہوں۔
سیر ہوکر کھاپی رہا ہوں اور قہقہے لگارہا ہوں۔ حاجی صاحب سینہ پھلا کر گلاب کی کیاریوں کی طرف چل دئیے
اور فرمایا میں اب نہیں گروں گا جب تک کہ یہ بچے اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہوجاتے۔
حاجی صاحب گلاب کی کیاریوں کے قریب رک
گئے اور ایک عجیب فقرہ زبان پر لائے ..
’’قدرت‘ یتیموں کو سائے دینے والے
درختوں کے سائے لمبے کر دیا کرتی ہے


بد کار نوجوان

ستمبر 23, 2019 0
بد کار نوجوان


ایک نوجوان نہایت بدکار تھا لیکن جب وہ کسی گناہ کا ارتکاب کرتا اسکو کاپی میں نوٹ کر لیتا تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک عورت نہایت غریب اس کے بچے تین دن سے بھوکے تھے وہ اپنے بچوں کی پریشانی برداشت نہ کر سکی تو اس نے اپنے پڑوسی سے ایک عمدہ ریشم کا جوڑا ادھار لے لیا وہ اسے پہن کر نکلی تو اس نوجوان نے اسے دیکھ کر اپنے پاس بلایا جب اسکے ساتھ بدکاری کاارادہ کیا تو وہ عورت روتے ہوئے تڑپنے لگی اور کہا میں فاحشہ یا زانیہ نہیں ہوں میں بچوں کی پریشانی کی وجہ سے اس طرح نکلی ہوں۔ جب تم نے مجھے بلایا تو خیر کی امید ہوئی۔

اس نوجوان نے اسے کافی درہم دئے اور رونے لگا اور گھر آ کر اپنی والدہ کو پورا واقعہ سنایا۔ اسکی والدہ اسکو ہمیشہ معصیت “برائی” سے روکتی منع کرتی تھی آج یہ سن کر بہت خوش ہوئی اورکہا بیٹا تو نے زندگی میں یہی ایک نیکی کی ہے اسکو بھی اپنی کاپی میں نوٹ کر لے
بیٹے نے کہا کاپی میں اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے والدہ نے کہا کاپی کے حاشیہ پر نوٹ کر لے چناچہ حاشیہ پر نوٹ کر لیا اور نہایت غمگین ہو کر سو گیا۔

جب بیدار ہوتا تو دیکھا پوری کاپی سفید اور صاف کاغذوں کی ہے کوئی چیز لکھی ہوئی باقی نہیں رہی صرف حاشیہ پر جو آج کا واقعہ نوٹ کیاتھا وہی باقی تھا
اور کاپی کے اوپر کے حصہ میں ایک آیت لکھی ہوئی تھی

اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِؕ
(سورہ ھود آیت 114)

بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔

That are good remove those that are evil:
(سورہ ھود آیت 114)
اس کے بعد اس نے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی اور اسی پر قائم رہ کر مرا ..

‏‎علامہ یافعی کی کتاب “الترغیب والترہیب” سے لیا گیا ہے،‏‎)

کھوٹہ سکہ

ستمبر 23, 2019 0
کھوٹہ سکہ



گزرے زمانے میں ایک شخص گاؤں میں رہتا تھا جو خوب دل لگا کر باقائدگی کیساتھ پنچگانہ نماز باجماعت پڑھتا تھا اس لئے لوگ اس کو محنت مزدوری کے لئے نہیں بلاتے تھے۔ شکایت یہ تھی کہ ہر گھڑی مسجد کی دوڑ لگاتا رہتا ہے۔

ایک بار زمیندار کے گھر شادی تھی۔ کام کرنے والے کم پڑ گئے تو اس کو بھی بلا لیا۔ اس نے اس شرط پر آمادگی ظاہر کی کہ نماز باجماعت ھی پڑھوں گا۔ 

زمیندار صاحب آمادہ ہو گئے کام جب ختم ہوا تو اس کی مزدوری دس پیسے بنی زمیندار صاحب نے اس کو چونی دی جو سولہ پیسے کی ہوتی تھی۔ وہ غریب بہت خوش ہوا سر شام دکان پر پہنچا گھر کی ضرورت کا سامان لیا۔ ماں کے لئے گڑ بھی لیا تاکہ وہ اپنی پسند کا حلوہ بنا دے۔ دکاندار نے کہا کہ بارہ پیسے ہو گئے اس غریب نے پلے سے کھول کر چونی دی دکاندار نے چراغ کی رشنی میں دیکھا ، پرکھا اور چونی اس کی جھولی میں پھینک دی اور غصہ میں بولا “ہر دم مسجد کی دوڑ لگاتے ہو اور رات کے اندھیرے میں کھوٹی چونی دیتے ہو”۔

یہ سن کر وہ غش کھا کر گر پڑا  جس نے سنا ، سناٹے میں آ گیا کسی نے بتا دیا کہ یہ چونی تو ابھی زمیندار صاحب کے گھر سے اس کو ملی تھی۔ ہمدردی میں لوگوں نے اس کے لئے پیسے جمع کئے کچھ دیر میں اس کو ہوش آیا تو لوگوں نے کہا بھائی اتنا صدمہ ایک چونی کا؟ 

لو ہم نے تمہارے لئے یہ پیسے جمع کر دئے ہیں،
وہ شخص بولا،
صدمہ چونی کھوٹی مل جانے کا نہیں ہوا خیال یہ آیا کہ اگر قیامت کے دن اللہ نے میری نمازیں یہ کہہ کر میرے منہ پر مار دیں کہ کھوٹی ہیں تو کہاں جاؤں گا ؟
اللہ اکبر😢😢



آپ جس دن خود کو پہچان لیں گے

ستمبر 23, 2019 0
آپ جس دن خود کو پہچان لیں گے



بادشاہ کو دو باز تحفے میں ملے‘اس نے اتنے خوبصورت پرندے کبھی نہیں دیکھے تھے‘بادشاہ ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوا‘ بادشاہ نے دونوں پرندے اپنے ملازم کو حوالے کئے اور اسے حکم دیا کہ ان دونوں کی تربیت اچھے طریقے سے کی جائے‘ملازم کورنش بجا لایااوردربار سے چلا گیا‘ کچھ دن گزرے تو وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا‘ بادشاہ نے اس سے بازوں کے متعلق پوچھا‘ ملازم نے بادشاہ کو بتایا کہ ایک پرندہ اونچی اڑان اڑ رہا ہے اور دوسرا جس دن سے آیا ہے اپنی شاخ سے نہیں اڑ پا رہا‘



بادشاہ نے مملکت کے تمام معالجوں اور جادو گروں کو طلب کر لیا لیکن کوئی اس باز کو نہ اڑا سکا‘بادشاہ نے اپنے مشیروں کے سامنے یہ مسئلہ رکھا‘گھنٹے دن اور دن مہینوں میں ڈھل گئے لیکن باز نہ اڑ سکا‘بادشاہ نے کسی ایسے شخص کو بلانے کا فیصلہ کیا جو قدرت سے گہری دلچسپی رکھتا ہو‘ بادشاہ نے اپنے مشیروں کو حکم دیا کہ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈ کر لائو جو برسوں جنگلات میں گزار چکا ہو۔اگلے دن بادشاہ باز کو محل کے باغوں میں اڑتے ہوئے دیکھ کر حیران رہ گیا‘بادشاہ نے اس شخص کو طلب کیا جس نے باز کو اڑایا تھا‘اس شخص کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا‘بادشاہ نے پوچھا تم نے باز کو کیسے اڑایا؟ وہ مسکرا کر بولا میں نے وہ شاخ کاٹ دی جس پر باز بیٹھا تھا۔آگے بڑھنے کے مواقع بہت ہیں لیکن ہم آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے‘ہم اپنی آسائشوں سے قدم باہر ہی نہیں نکالتے‘نئی آزمائشیں اور نئے تجربے ہی زندگی میں آگے بڑھنے کی وجہ بنتے ہیں‘آزمائشوں کا مقابلہ کریں یہی کامیابی کا واحد رستہ ہے‘ جس دن خود کو پہچان لیں گے اس دن کسی کی جان پہچان کی ضرورت نہیں ہو گی۔

نائی اور غربت دی چس

ستمبر 23, 2019 0
نائی اور غربت دی چس


ایک گاؤں میں غریب نائی رہتا تھا جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حجامت کرتا ۔ مشکل سے گزر بسر ہوتی. اس کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا نہ بیوی تھی نہ بچے تھے۔ ایک چادر اور ایک تکیہ اس کی ملکیت تھی ۔جب رات ہوتی تو وہ ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا، تکیہ رکھتا اور سو جاتا. 
ایک دن صبح کے وقت گاوں میں سیلاب آ گیا. 

اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شور و غل تھا۔ وہ اٹھا اور سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا. چادر بچھائی، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا ۔
لوگ اپنا سامان، گھر کی قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہے تھے.  کوئی نقدی لے کر بھاگ رہا ہے، کوئی زیور  کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہا ہے۔

اسی دوران ایک شخص بھاگتا آ رہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے۔جب وہ اس نائی کے پاس سے گزرا تو اسے سکون سے لیٹے ہوئے دیکھا تو رک کر بولا۔۔۔ اوئے ساڈی ہر چیز اجڑ گئی اے. ساڈی جان تے بنی اے،  تے تو ایتھے سکون نال لیٹا ہویا ویں۔۔۔۔
یہ سن کر وہ ہنس کر بولا : لالے اج ای تے غربت دی چس آئی اے۔ 

جب میں نے یہ کہانی سنی تو ہنس پڑا ۔مگر پھر ایک خیال سا آیا۔
میں روز محشر والے دن کا سوچنے لگا کہ بروز حشر کا منظر بھی کچھ ایسا ہو۔ جب تمام انسانوں کا حساب قائم ہو گا۔ ایک طرف غریبوں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔ دو وقت کی روٹی، کپڑا ۔حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔
ایک طرف امیروں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔پلازے. دکانیں. فیکٹریاں. گاڑیاں. بنگلے. سونا چاندی ۔ ملازم ۔ پیسہ ۔حلال حرام۔ عیش و آرام ۔ زکواۃ ۔حقوق اللہ۔ حقوق العباد...
اتنی چیزوں کا حساب کتاب دیتے ہوئے پسینے سے شرابور اور خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہو گے۔
دوسری طرف غریب کھڑے ان کو دیکھ رہے ہو گے چہرے پر ایک عجیب سا سکون اور  شاید دل ہی دل میں  کہہ رہے ہو گے...
اج ای تے غربت دی چس آئی اے...  

جمعہ، 20 ستمبر، 2019

اے کشمیر والو

ستمبر 20, 2019 0
اے کشمیر والو

ہم بھولا نہ سکیں گے یہ ظلم اے کشمیر والو
ہم سلام کہتے ہیں تیری جرآت کو اے کشمیر والو

آزادی ایک نعمت ہے مگر اب یہ گویا
ہونے کو ہے تم آزاداحوصلہ رکھ اے کشمیر والو

ہم بے بس ہیں تیری یہ درد کی داستان پر
مگر ہم ساتھ ہیں تیرے اے کشمیر والو

حوصلہ رکھ،جرآت ،شجاعت اور اُمید رکھ
وقت آزادی قریب ہے اے کشمیر والو

ہمارے رب سے یہی التجا ہے صدا
ہوجائے جلد آزاد دعا ہے اے کشمیر والو
----------------------------------


قسمت- ناول

ستمبر 20, 2019 1
قسمت- ناول

قسمت
1
آج یونیورسٹی میں میرا پہلا دن تھا۔ میں بہت گھبرائی ہوئی تھی ۔ کیوں کے مجھے میری کزنوں نے بہت ڈرا دیا تھا جب انکو پتا چلا کے میں نے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا۔“ دیکھنا وہاں تمہارے ساتھ کیا ہوتا ، وہاں نیو ایڈمیشن لینے والوں کو بہت تنگ کیا جاتا ہے ۔ سب کے سامنے انکا مزاق بنایا جاتا ہے ۔ پہلی نے آنکھیں نچا نچا کے کہا ۔“ اور کیا دیکھنا تمہارا کیا حال کرتے، تم نے دو دن میں ہی بھاگ آنا وہاں سے ، اسی لئے تو میں نے ایڈمیشن نہیں لیا ۔ بھئی میرا کوئی دماغ خراب ہے جو وہاں جا کے دوسروں کا مزاق بنو۔“ دوسری نے اوور ایکٹنگ کی بھر پور کوشش کی، پر میں انکی باتوں میں نہیں آئی میں جانتی تھی یہ سڑتی ہیں مجھ سے جل ککریاں نہ ہو تو، میں انکی ساری چالبازیاں سمجھتی تھی ۔“

اچھا یہ سب ہوتا وہاں اچھا کیا تم لوگوں نے بتا دیا، میری توبہ بھئی جو اب میں یونیورسٹی جاؤ ۔وہ دونوں خوش ہوگئی میری اصلی ایکٹنگ دیکھ کر ۔ مٰیں دل ہی دل میں مسکراتی گھر واپس آکر کل یونیورسٹی جانے کی تیاری کرنے لگی، اور خیال میں ہی انکے حیران چہرے دیکھ کر مسکرانے لگی جو کل میرے یونیوڑسٹی جانے پر حیران ہونے والے تھے ۔“ایکسکیوزمی! کیا آپ مجھے ہسٹری پاڑٹ ون کی کلاس کہا ہو رہی بتائے گی؟ “ لڑکی نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا “ ہاں کیوں نہیں یہاں سے سیدھا جاکے رائٹ ہوجانا پھر لیفٹ سامنے ہی آپکی کلاس نظر آجائے گی “ پھر وہ لڑکی اپنے دوستوں کی طرف منہ کر کے ہسنے لگی۔“ آج کا بکرا مل گیا “ اسنے اتنی آہستہ آواز میں کہا کے ہانیہ سن نہیں سکی۔ یہ لاہور کی پنجاب یونیورسٹی تھی ہی اتنی بری کے اسے کسی نہ کسی سے پوچھنا ہی تھا ۔ یہاں اتنی بلاکس تھے ، جانے کونسے بلاکس میں اسکی کلاس ہونی تھی ۔خیر وہ اسکے بتائے ہوئی جگہ پر جب پہنچی تب سامنے “ ٹائلٹ فار وومین “ لکھا دیکھ کر اسے اپنی کزنز کی باتیں یاد آگئی ۔

دل تو کیا کے اس لڑکی کو کھڑی کھڑی سنا کے آئے پر کیا فائدہ ؟وہ رو دینے کو تھی تبھی اسے کسی نے پکارہ “ آپ پریشان لگ رہی ہیں “ ایک نرم سی آواز اسکے کانوں میں گونجی اسنے سر اٹھا کر دیکھا سامنے ایک لڑکا کھڑا تھا ۔ جو دیکھنے میں شریف سا لگ رہا تھا ۔ لبوں پہ نرم مہربان سی مسکراہٹ لئے وہ اسے پہلی نظر میں ہی اچھا لگا۔دل کیا اس انسان سے مدد لینے کو پھر دماغ نے کہا کسی پہ بھروسہ نہ کرنا ۔ “ مس میں آپ سے مخاتب ہوں “ اسنے مسکراتے ہوئےپھر پوچھا “ میں پریشان نہیں اور مجھے کسی کی مدد نہیں چاہیے ، آپ کی تو بلکل نہیں “ اتنا کہ کر دو آنسو اسکے گالوں پر پھسل گئے “ ارے کیا بات ہیں بیٹا “ اسنے بیٹا کہنے پر حیرانی سے دیکھا “ کیا ہوا ارحان! “ وہ ابھی کچھ کہنے ہی والی تھی، اتنے میں ایک لڑکی نے آ کر اسے پوچھا ۔“ یہ بچی ہمیں پریشان لگی ہم انکو پوچھ رہے تھےکہ کیا مسئلہ ہے ، پر یہ ہمیں بتا ہی نہیں رہی، آپ ہماری مدد کری مہمل اور انکو پوچھے “۔“ میں پوچھتی ہوں “ مہمل نے پیار سے کہا ۔ پھر ہانیہ اس سے اپنی کلاس پوچھنے لگی۔ ارحان اور مہمل نے اسے ساری کلاسس دیکھا بھی دی تھی اور اسے یہ بھی کہا تھا کہ جب کبھی کچھ پوچھنا ہو ، یا کوئی مسئلہ ہو تو ہمیں بتائے۔

وہ ان دونوں سے مل کر بہت خوش تھی ، اور یہ سوچ رہی تھی شاید کوئی نیکی کی ہوگی جو یہ دونوں ملے۔ پر اسے وہ لڑکی یاد آئی تو دل کیا جا کےایک رکھو اسکے کان کے نیچے۔خیر وہ اب اپنی کلاس لینے چلی گئی تھی۔“ ارحان لگتا ہے آپ نے سب کی مدد کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے“ مہمل نے ارحان کو کہا “ ایسی بات بھی نہیں ہے اب ہم نے دیکھا تھا اس بچی کی آنکھوں میں آنسو اگر آپ نا آتی تو وہ شاید اپنی پریشانی نہ بتاتی اور یونہی پریشان ہوتی رہتی “ ارحان نے فکر مندی سے کہا وہ تھا ہی ایسا ہر کسی کے دل میں آسانی سے جگہ بنا لیتا تھا۔ آدھی سے زیادہ یہاں کی لڑکیاں اس کے پیچھے پاگل تھی ،مگر مہمل کی جگہ کوئی نہیں لے سکی ۔ ارحان کا چھوٹا سا دل تھا جو کسی کو مصیبت میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔سب وہاں اسکی اسی عادت کی وجہ سے بہت عزت کرتے تھے ۔ وہاں کے ٹیچرز بھی ارحان کو بہت پسند کرتے تھے ۔ سب ٹیچرز اور سٹوڈنٹس ارحان کو ارحان بھائی کہ کر بلاتے تھے۔ سب کے کہنے کی وجہ سے ہانیہ بھی ارحان بھائی کہنے لگ گئی تھی۔وہ بہت جلد مہمل اور ارحان کی قریبی دوست بن گئی تھی ارحان کو بھی اپنی چھوٹی بہن کی طرح عزیز ہو گئی تھی۔“

یہ وہی ہے ،،،، وہی ہے بھائی یہ “ ہانیہ نے سویٹی کو دیکھتے ہی کہا سویٹی کو چاہے وہ یاد نہ ہو پر وہ اسے کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔ “ کون ہے وہ کاکو“ ارحان ہانیہ کو پیار سے کاکو کہا کرتے تھے ۔ “ بھائی یہ وہی ہے جس نے مجھے اس دن غلط راستہ بتایا تھا ۔ آپ آئیے میرے ساتھ “ وہ ارحان کا ہاتھ پکر کے اسکے پاس لے گئی ۔ سوئٹی کی پشت ان کی طرف کر کے بیٹھی تھی ۔“

2
“ اہ ارحان آپ کیسے ہیں آپ “ وہ ارحان کا ہاتھ پکر کے انکے سامنے آ کھری ہوئیجسے دیکھتے ہی سویٹی نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے کہا کیوں کے ارحان کم کم ہی انکے گروپ کی طرف آیا کرتا تھا ،جب سے اسے پتہ چلا تھا کہ سویٹی اسے پسند کرتی ہے ۔ یہ حال بس سویٹی کا ہی نہیں یونیورسٹی کی آدھی سے زیادہ لڑکیاں ان پر مرتی تھی ۔ ایک تو وہ ہینڈسم تھے دوسرا انکا اخلاق بے حد اچھا تھا ۔“ اللہ کا شکر ہے ، سویٹی آپ کیسی ہیں“ ارحان نے جوابا پوچھا “ میں پہلے جیسی خوبصورت “ سویٹی نے کہا ، وہ ایسی ہی تھی خود کو دنیا کی خوبصورت ترین لڑکی سمجھتی تھی ، اسکے جواب میں ارحان نے بس مسکرانے پر اکتفا کیا ۔ 

“یہ لڑکی کون ہے ارحان “ سویٹی نے ہانیہ کو دیکھتے ہی پوچھا ، “ یہ کاکو ،،، آئی مین یہ ہانیہ ہیں اور آپ نے ہماری بہن کو تنگ کیوں کیا تھا ؟جب انکا پہلا دن تھا آپنے انکو کلاس بتانے کے بجائے ٹوئلٹ کا راستہ دیکھا دیا ۔ چلے سوری کرے میری سسٹر کو “ والی نے سویٹی کو سر سے اشارہ کر کے سوری کرنے کا کہا کیوں کےوہ ہانیہ کو اپنی حقیقی بہن سجھنے لگ گئے تھے اور سویٹی نے سوری نہیں کرنی تھی اس لئے انہیں اشارہ کرنا پڑا ہانیہ کی گردن فخر سے اکڑ گئی تھی ۔“ ایم ساری ،،،،فرینڈز “ سوئٹی نے دوستی کے لئے آگے ہاتھ بھرایا ہانیہ نے اپنا ہاتھ آگے نہیں کیا وہ ارحان کی طرف دیکھنے لگ گئی۔“ ہاتھ آگے بڑھائے کاکو “ ہانیہ نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ آگے کر دیا ۔

ایسے ہی ان سب کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی ، یہ لوگ ہر روز ملتے خوب مستی کرتے اورساتھ پڑھائی بھی کرتے ایسے ہی بہت سارے دن گزر گئے ۔ پھر ایک دن ہانئہ اور ارحان کینٹین میں بیٹھے سموسے اور پیپسی کی بوتل کے ساتھ ڈھیر ساری باتیں کر رہے تھے ساتھ سموسہ پارٹی بھی ایجوئے کر رہے تھے ۔ “ کاکو بھائی ایک بات پوچھیں آپ سے “ ارحان نے کچھ سوچتے ہوئے اسے کہا “ بھائی پوچھ کے پوچھیں گے کیا؟جو بھی بات ہوتی ہے کہ دیا کرے “ ہانیہ نے مسکراتے ہوئے پیار بھری لہجے میں کہا ،،، کاکو کو یہاں سب سے اچھی لڑکی کون سی لگتی ہے ؟“ “ مہمل آپی “ اسنے سموسہ کھاتے ہوئے مصروف سے انداز میں جواب دیا ۔“ سویٹی نہیں “ ارحان نے نا جانے کیا سوچتے ہوئے سویٹی کا پوچھا۔

“ نہیں “ اسکا سموسہ کھاتا ہاتھ کچھ لمحوں کے لئے ساکت ہوا پر وہ پھر سمبھل کر نہیں کہ پائی ۔“ کیوں ؟ “ والی نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔“ وہ ہر ٹائم ارحان ارحان کرتی رہتی ہے بھائی ، وہ ارحان ارحان کرنا چھوڑ دے اس میں کوئی برائی نہیں ہے بھائی “ وہ اسکی بات سن کے زور سے قہقہ مار کے ہنسنے لگ گئے ۔“آپ ہنس رہے ہیں ۔اور جب وہ ایسا کرتی مجھے چڑ ہوتی ہیں ۔ بھائی آپ شادی کرلے نہیں تو منگنی کر لے ، تا کہ سب لڑکیوں کو پتہ چل جائے کہ اب ارحان انکا نہیں ہو سکتا۔“وہ سموسہ چھوڑ چھاڑ کے اب سیریس ہو کے بیٹھ گئی تھی ۔“

کاکو اب ماما بھی کہتی ہیں شادی کر لو ، پر بھائی نے ابھی شادی نہیں کرنی ، ہاں اگر کاکو بھائی کے لئے کوئی لڑکی ڈھونڈے گی تو وہ ضرور کرے گے ، کاکو جس سے کہے گی بھائی اسی سے شادی کریں گے ۔“والی نے شرارت سے کہا ۔“ سچی بھائی ؟ اگر یہ بات ہے تو مہمل آپی آپ کے لئے پرفیکٹ ہیں ؟ “ہانیہ نے خوشی سے اپنی موسٹ فیورٹ آپی کا نام لیا ۔“ کاکو یونیورسٹی کے علاوہ جہاں کہوگی، بھائی وہی شادی کرے گے۔ “ ارحان یہ کہ کر ایکسکیوز کرتا اٹھ کے چلا گیا۔ “ بھائی مہمل آپی اچھی ہیں۔ “ ہانیہ نے انہیں جاتے ہوئے دیکھ کر منہ پھلا کر مصنوعی ناراضگی سے کہا ۔“ وہ بہت اچھی ہیں کاکو! بھائی جانتے ہیں ، بس یہ کہوں گا وہ بھائی کی کبھی نہیں ہو سکتی ۔ ابھی ہم چلتے ہیں امید کرتے ہیں کاکو اب بھائی سے اس بارے میں بات نہیں کرے گی ۔“

والی نے برے پیار سے اسے جاتے ہوئے سمجھا دیا اور وہاں سے چلا گیا ۔ارحان مہمل سے بہت محبت کرتا تھا ۔ یہ بات اسنے مہمل سے بہت بار کہنے کی کوشش کی ، مگر مہمل نے ہمیشہ کوئی ایسی بات کر دینی ہوتی تھی جس سے یہ بات بیچ میں ہی رہ جاتی ۔ ارحان کو لگتا وہ جان بوجھ کے ایسا کرتی اس لئے وہ دل کی بات دل میں ہی دبا لیتے ۔ مگر ہانیہ ان دونوں کے دلوں کا حال سمجھ گئی تھی اور وہ دل سے چاہیتی تھی کہ انکی محبت کو کنارہ مل جائے ورنہ یہ سمندر کی لہروں کی طرح دل میں بھٹکتی رہے گی ، اور دل کا سکون برباد کر دے گی ، اور ہلچل مچائے رکھے گی ۔پھر سالانہ پیپر شروع ہوگئے سب اپنی ایگزام میں بزی ہو گئے ۔ پتہ ہی نہیں چلا دو سال کیسے گزر گئے ہانیہ بہت خوش تھی کیونکہ اسے یہاں سے ارحان اور مہمل جیسے اتنے اچھے دوست ملے ۔ سب کے ہی ایگزام بہت اچھے ہوئے۔ یونیورسٹی کے بعد بھی ہانیہ کا ارحان اور مہمل سے موبائل پر رابطہ تھا ۔23 فروری 2017 جب وہ سو کر اٹھی تو عادت کے مطابق سب سے پہلے اسنے اپنے موبائل کو تکیے کے نیچے تلاش کیا۔کچھ تگ و تد کے بعد موبائل اسکے ہاتھ لگ ہی گیا ، 
3
اسکے لبوں پر دھیمی سی مسکان آ گئی اور مونائل آن کر کے سب سے پہلے ہمیشہ کی طرح اسنے ان باکس ہی چیک کیا “ سب سے پہلا میسج مہمل آپی کا تھا اسنے جلدی سے مسج کو کھولا۔ “ بھالو ،،، ًًمجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہیں فری ہو کر مجھے کال یا مسج کرنا “ مہمل ہانیہ کو پیار سے بھالو کہتی تھی ۔

ہانیہ نے باقی میسیجز دیکھ کر موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور فریش ہونے باتھ میں چلی گئی ۔فرییش ہو کر وہ ناشتہ کرنے چلی گئی ۔جب واپس آئی تو اسے مہمل کا خیال آیا اور جلدی سے اسنے موبائل اٹھایا تاکہ مہمل آپی سے بات کر سکے پر سکرین پر دو اور میسج آئے ہوئے تھے ،جب اسنے وہ اوپن کئے تو وہ ارحان بھائی کے میسج تھے ، وہ مسکرا کر پڑھنے لگی ۔ جو نہی وہ میسج پڑھتی گئی اسکے لبوں سے مسکراہٹ غائب ہوتی گئی ۔“ کاکو کیسی ہیں ؟ بھائی ٹھیک نہیں ہیں کاکو! بھائی کل بہت روئے “ یہ ایک میسج تھا جسے اسنے پڑھا پھر وہ دوسرا میسج دیکھنے لگی ۔“

کاکو ایک بات بتائیں جسے آپ سب سے زیادہ چاہتے ہیں وہی آپ کو ہر بار ایگنور کرے تو کیسا لگے گا ؟وہ آپ کی کسی بات کو اہمیت نہ دے تو کیسا لگے گا ؟ وہ یہ میسج پڑھ کر فورا جواب دینے لگ گئی ۔ اس دوران وہ مہمل کے میسج کو بھول چکی تھی ۔“

بھائی کیا ہوا ہیں ؟ اور آپ کیوں روئے ہیں ؟ اور کون ہیں وہ جس نے آپ کو اگنور کیا مجھے بتائے میں اسکو پوچھتی ہوں ۔ “ کاکو ہم نہیں جانتے وہ ایسا کیوں کرتی ہیں پر ہم اتنا ضرور جان گئے ہیں کہ اب وہ ہماری کبھی نہیں ہو سکتی۔ ہم کسی کام سے باہر جا رہے ہیں آکر بات کرتے ہیں ۔ اپنا بہت خیال رکھنا ، اللہ حافظ ۔““ ٹھیک ہے بھائی اللہ حافظ ارحان سے بات کر کے وہ پریشان ہو گئی تھی وہ اسی بارے میں سوچ رہی تھی جب اسے مہمل کا خیال آیا اور اسنے فورا اسے میسج کیا۔کچھ دیر بعد اسکے موبائل پر بپ ہوئی ۔

وہ ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی بال بنا رہی تھی، تب اسنے موبائل اٹھا کر دیکھا تو مہمل کا میسج تھا اسنے جلدی سے اوپن کیا۔“ بھالو ہاں مجھے یہ کہنا تھا کہ ، کل میں نے ارحان کو پوچھا کہ کیا وہ میرے ساتھ پوری لائف گزارنا چاہے گا؟“ اسکے لئے آج حیرتوں کا دن تھا ۔ اسے لگتا تھا کہ ان دونوں میں کچھ نہ کچھ خاص ہے پر وہ پیار ہوگا اسنے سوچا نہیں تھا ۔ “ تو بھائی آپی کی بات کر رہے تھے ؟ “ اسنے خود سے سوال کیا وہ ہیر برش سائیڈ پر رکھ کے مسج ٹائپ کرنے لگی ۔“ آپی آج بھائی بہت پریشان تھے روئے بھی وہ ۔ کیا آپ انکو اگنور کرتی ہیں ؟ اور جب آپنے انکو پوچھا تب انہوں نے کیا کہا؟ “ وہ میسج ٹائپ کر کے بال بنا کر اٹھ کے بیڈ پر بیٹھ گئی ۔“

بھالو ارحان نے کہا کہ ، مہمل دل کرتا ایک تھپڑ لگاؤ آپکے زور سے ، اتنا دیر سے کیوں کہا پہلے کیوں نہیں کہا؟پھر رونے لگ گئے ۔ بھالو تم ہی بتاؤ میں نے لڑکی ہو کر کہا اسنے کیوں نہیں کہا ۔ اور میں اسکو اگنور کرتی تھی بہت پہلے اب تو کبھی نہیں کیا ۔“ موبائل کی بپ ہونے پر اسنے جب دیکھا تو مہمل کا یہ میسج آیا تھا ۔“ آپی اب میں بات کرتی ہوں بھائی سے آپ پریشان نہ ہوں “ وہ مہمل کو میسج کر کے اب ارحان کو کال کرنے لگ گئی پر کال اٹینڈ نہیں ہوئی اسنے پھر اسے میسج کر دیا۔ تب تک مہمل کا میسج آ چکا تھا ۔“ نہیں بھالو اب کوئی فائدہ نہیں ارحان کا رشتہ اسکی ماموں کے ہاں پکا ہو گیا ہے ۔

میں نے دیر کردی بھالو ! اب کچھ نہیں ہو سکتا ، وہ اپنی امی سے بہت محبت کرتے ہیں وہ کبھی بھی یہ رشتہ توڑ کے انکا دل نہیں توڑیں گے “ وہ میسج پڑھ کے فورا جواب ٹائپ کرنے لگی ۔“ آپی اب میں نے انکو میسج کر دیا فری ہوتے ہی بات کریں ، کال کی تھی اٹینڈ نہیں ہوئی ۔ رہی بات رشتے کی جانتی ہوں وہ کبھی انکار نہیں کریں گے پر میں انکی امی سے بات کرو گی سب ٹھیک ہو جاے گا ۔آپ پریشان نہ ہوں “ ہانیہ میسج کر کے جواب کا انتظار کرنے لگی ۔ کچھ لمحوں بعد ہی اسکے موبائل کی بپ ہوئی ۔“ مجھے لڑکے والے دیکھنے آ رہے ہیں پھر بات ہوگی بھالو۔ ارحان کا میسج آئے تو بتانا“ ہانیہ اوکے کا میسج اسے کرتی اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئی ۔ادھر ارحان ڈرائیو کے دوران مسلسل مہمل کی بات ہی سوچی جا رہا تھا۔ 

“ ارحان کیا میرے ساتھ پوری زندگی گزارو گے“ یہ الفاظ اسکے کانوں میں گونج رہے تھے اور اسے کچھ سنائی نہًٰں دے ریا تھا ۔رات کا اندھیرا تھا کہ بھرتا ہی جا رہا تھا یہ اندھیرا اسکی زندگی سے کالا تا نہیں تھا ۔ آنسو اسکے چہرے کو غسل دے رہے تھے ۔ وہ جس سے وہ خاموش محبت کرتا تھا وہ اسے ملی بھی کب جب وہ کسی اور کے ساتھ جر چکا تھا ۔ اسکا وجود چھلنی ہو گیا تھا۔ دل تھا کہ درد سے پھٹا جا رہا تھا ۔ کہ اچانک اسکی آنکھوں کے سامنے تیز روشنی آئی اور تیز ہارن کی آواز بھی ، اسنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لئے اور پھر زور دار دھماکہ ہوا ۔ اسکے حواس مجتما ہونے میں کچھ لمحے لگے ۔اسکو جو پہلا احساس ہوا وہ درد کا تھا ۔ اسکے پورے جسم میں شدید قسم کا درد ہو رہا تھا ۔


4
اسے اپنے چہرے پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہوا ۔ وہ خون تھا شاید اسنے دیکھنے کے لئے اپنے بازو کو حرکت دی، مگر یہ کیا بازو کسی وزن دار چیز کے نیچے تھا ۔ اسکا پورا وجود ہل نہیں ریا تھا بس اسکی آنکھیں حرکت کر رہی تھی ۔ اسکی آنکھوں کے سامنے اسکی ماں کا چہرہ آیا وہ امی کہ کر رونے لگا پھر اسے مہمل کا مسکراتا چہرہ نظر آیا وہ اسے دیکھ کر مسکرا دیا ۔ کچھ دیر بعد اسے لوگوں کی ملی جلی آوازیں سنائی دی ۔

“یہ زندہ ہے ۔ زندہ ہے یہ “ کوئی چیخ رہا تھا پھر اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ۔کچھ دن یونہی گزر گئے ارحان کا کچھ پتا نہیں تھا۔ مہمل بار بار ہانیہ کو کبھی کال کبھی میسج کر کے ارحان کا پوچھتی مگر دونوں ہی کو ارحان کا نہ میسج نا کال آئی پھر دونوں نے سویٹی کو پوچھا ، پر سویٹی بھی اسکی غیر موجودگی سے لا علم تھی ۔مہمل ہر روز اسکو میسج کرتی مگر کوئی جواب نہیں آتا ۔

ارحان ایسا نہیں تھا وہ ضرور کسی مشکل میں ہوگا جو جواب نہیں دیتا ۔ اسی دوران مہمل کا رشتہ بھی پکا ہوگیا پر ارحان کا کچھ پتا نہ تھا ۔ 14 مارچ کو مہمل جب مہمل اپنی منگنی کی شاپنگ سے واپس آئی تو اسنے گھر آکر اپنا موبائل دیکھا تو اس پر ارحان کا میسج دیکھ کر حیران رہ گئی ۔ اسنے جلدی سے میسج پڑھنا شروع کیا ۔“مہمل کیسی ہو ۔ 23 فروری کو میرا روڈ ایکسیڈنٹ ہوا تھا ۔میرے سیدھے بازو اور بیک بون اور گردن پر چوٹ آئی ، بازو کا اپریشن کامیاب ہوگیا ۔ پر بیک بون اور گردن کا آج ہے دعا کرنا اپریشن ٹھیک ہو ۔“ میسج پڑھتے ہوئے مہمل کی آنکھوں میں آنسو آگئے اسنے فورا کال کی پر نمبر آف تھا ۔ اسنے ہانیہ کو بھی بتایا اب دونوں اسکی زندگی کے کئے دعا گو ہیں ۔ مہمل اور ارحان دونوں اب کبھی ایک نہیں ہو سکتے کیوں کے دونوں کی بات پکی ہو چکی ہے ۔ انسان قسمت کے ہاتھوں کتنا مجبور ہے کہ وہ اس سے لڑ نہیں سکتا